اور اسے اس بات پر بھی یقین ہونا چاہئے کہ جو چیز اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے وہ اس سے چوکنے والی نہیں ، بلکہ اسے مل کر رہے گی۔اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھی وہ اسے ملنے والی نہیں ، چاہے وہ جتنی محنت کر لے اور چاہے جتنے جتن کر لے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ ، وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ) ’’اور اس بات پر بھی اچھی طرح سے یقین کر لو کہ جو چیز اللہ تعالیٰ تجھ سے روک لے وہ تجھے ہرگز نہیں مل سکتی۔ اور جو چیزاللہ تعالیٰ تجھے عطا کرنا چاہے اسے کوئی بھی تجھ سے روک نہیں سکتا۔‘‘[1] اور ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے عرض کی:میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہات پیدا ہوگئے ہیں ، لہذا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ میرے وہ شبہات ختم کردے۔تو انھوں نے فرمایا: ’’ اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو یہ اس کی طرف سے ان پر ظلم نہ ہوگا۔اوراگر وہ ان پر رحم فرمائے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اور اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ تم تقدیر پر ایمان لے آؤ۔اور اس بات پر یقین کر لو کہ جو چیز تمہاری مقدر میں لکھی ہوئی ہے وہ تم سے چوک نہیں سکتی۔ اور جو چیز تمہارے مقدر میں نہیں لکھی ہوئی ہے وہ تمہیں مل نہیں سکتی۔(اور یاد رکھو)اگر تمہاری موت اس کے علاوہ کسی اورعقیدہ پر آئی تو تم جہنم میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘[2] ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انھوں نے بھی مجھے یہی بات کہی۔اور پھر میں حضرت حذیفۃ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا۔بعد ازاں میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انھوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی طرح کی حدیث سنائی لہذا تقدیر پر راضی ہونا لازمی امر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ ہر قسم کی بھلائی، عدل اور حکمت سے پُر ہے۔ اورجو شخص اس پر مطمئن ہوجائے وہ حیرت، تردد اور پریشانی سے محفوظ ہوجاتا ہے۔اور اس کی زندگی میں بے قراری اور اضطراب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔اور پھر وہ کسی چیز کے چھن جانے سے غمزدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ رہتا ہے۔بلکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند، خوشگوار اور آسودہ حال ہوتا ہے۔اور جس شخص کو اس بات پر یقین کامل ہو کہ اس کی زندگی محدود ہے اور اس کا رزق متعین اور معدود ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ بزدلی اس کی عمر میں اور بخیلی اس کے رزق میں کبھی اضافے کا باعث نہ بنے گی۔ ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ |