اسے جو مصیبت پہنچے وہ اس پر صبر کرے اور اپنے گناہوں پر استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شِیْئٍ عَلِیْمٌ ﴾ ’’کوئی مصیبت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی۔ اورجو شخص اللہ پر ایمان لائے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘[1] نیز فرمایا:﴿ فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ ﴾ ’’پس اے نبی! آپ صبر کیجئے۔بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے۔نیز آپ اپنے گناہ کی معافی مانگتے رہئے۔ ‘‘[2] مسئلۂ قدر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے تقدیر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے جسے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا کسی کو گمراہ کرنا، کسی کو ہدایت دینا، کسی کو مارنا، کسی کو زندہ کرنا، کسی کو محروم کرنا اور کسی کو نواز نا وغیرہ ہے…ان تمام امور سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (إِذََا ذُکِرَ الْقَدْرُ فَأَمْسِکُوْا)یعنی ’’جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو(بحث کرنے سے)رُک جاؤ۔‘‘[3] تقدیر کو حجت بناتے ہوئے عمل کو چھوڑنا جائز نہیں جو کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کو چھوڑ دینا جائز نہیں، کیونکہ کسی کے پاس کوئی علم یقینی تو نہیں ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی۔ اگراس کے پاس کچھ علم ہوتا تو ہم اسے نہ کسی کام کا حکم دیتے اور نہ کسی کام سے منع کرتے۔ اور اگر عمل کو چھوڑنا جائز ہوتا تو کبھی کسی قوم پر عذابِ الٰہی نازل نہ ہوتا۔ اور نہ کسی کافر اور فاسق و فاجر کا مؤاخذہ ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بقیع میں ایک جنازے میں شریک تھے۔ اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ سر جھکائے ہوئے زمین پر کرید رہے تھے(جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: |