کوواضح فرما دیا۔لہذا ان دلائل کی بناء پر انسان کو مجبور محض قرار دینا بالکل غلط ہے۔ بندے پر تقدیر کے متعلق واجبات بندے پر تقدیر کے بارے میں دو واجب ہیں: 1۔حسب مقدور واجبات وفرائض پر عمل کرے اور محرمات سے اجتناب کرے۔اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے اور اس سے دعا کرے کہ وہ اس کیلئے خیر وبھلائی کے اعمال میسر فرمادے۔صرف اسی پر توکل کرے ، اسی کی پناہ طلب کرے اور بھلائی کے حصول اور برائی کے ترک کرنے پر اسی کا محتاج رہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ ، وَفِیْ کُلٍّ خَیْرٌ ، اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ ، وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ وَلاَ تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْئٌ فَلاَ تَقُلْ لَوْ أَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا لَکَانَ کَذَا ، وَلٰکِنْ قُلْ:قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ) ’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہے اور دونوں میں خیر موجود ہے۔اور تم اس چیزکے حصول کیلئے کوشش کرو جو تمہارے لئے نفع بخش ہو۔اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر و اور عاجز نہ بنو۔ اوراگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا تھا اور اس نے جو چاہا وہ کر دیا۔ کیونکہ لفظ(لَوْ)یعنی(اگر)شیطانی عمل کو کھولتا ہے۔ ‘‘[1] 2۔انسان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر میں لکھی ہوئی چیز پر جزع وفزع کا اظہارنہ کرے بلکہ صبر کا مظاہرہ کرے۔ اور وہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جس پر اسے راضی ہی رہنا چاہئے اور اسے تسلیم کرنا چاہئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ:إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ) ’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے اور اس کا ہر معاملہ یقینا اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے۔اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے۔اس طرح وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے۔اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعثِ خیر بن جاتی ہے۔‘‘[2] |