Maktaba Wahhabi

244 - 492
بندوں کی کوئی مشیئت وچاہت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا﴾ ’’اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہوں کی راہنمائی ضرور کریں گے۔ ‘‘[1] اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ بندوں سے کوشش اور جد وجہد مطلوب ہے۔ افعال العباد سلف صالحین رحمہم اللہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کا اور ان کے افعال کا خالق ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ ہی نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا فرمایا ہے۔ ‘‘[2] یعنی کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مشیئتِ عامہ کے بغیر نہیں ہوتا۔ہاں البتہ ان افعال کے کرنے والے حقیقت میں بندے ہی ہیں۔ لہٰذا اگر کسی نے کسی واجب کام کو چھوڑا یا حرام کا ارتکاب کیا تو وہ یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہیں قائم کر سکتا کہ یہ تو میری قسمت میں لکھا ہوا تھا ،کیونکہ جب اس نے گناہ کیا تھا تو اس وقت اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گناہ میری تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ تقدیر تو اللہ تعالیٰ کا راز ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اور چونکہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے کیا اس لئے وہ تقدیر کو اپنے گناہ پر حجت نہیں بنا سکتا۔نیز یہ بات یاد رہے کہ مصائب پرتقدیر کو حجت بنانا تو جائز ہے، گناہوں پر حجت بنانا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کے باہمی جھگڑے کے بارے میں ارشاد ہے: (تَحَاجَّ آدمُ وَمُوْسیٰ ، فَقَالَ مُوْسیٰ:أَنْتَ آدَمُ الَّذِیْ أَخْرَجَتْکَ خَطِیْئَتُکَ مِنَ الْجَنَّۃِ ، فَقَالَ لَہُ آدَمُ:أَنْتَ مُوْسیٰ الَّذِیْ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالاَتِہٖ وَبِکَلاَمِہٖ ، ثُمَّ تَلُوْمُنِیْ عَلیٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ ؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوْسیٰ) ’’آدم اور موسیٰ(علیہ السلام)آپس میں جھگڑ پڑے۔چنانچہ موسیٰ(علیہ السلام)نے(آدم علیہ السلام سے)کہا:آپ وہی آدم ہیں جنہیں ان کی غلطی نے جنت سے نکال دیا تھا! آدم(علیہ السلام)نے کہا:آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کیلئے منتخب فرمایا۔اس کے باوجود بھی آپ مجھ کو ایک ایسے معاملے پر ملامت کر رہے ہیں جسے میری تخلیق سے قبل ہی میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا!
Flag Counter