تیسرا مرتبہ:اس بات پر ایمان لانا کہ ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہی واقع ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَمَا تَشَائُ وْنَ إِلاَّ أَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔ ‘‘[1] جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:(مَا شَائَ اللّٰہُ وَشِئْتَ)یعنی ’’جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں وہی ہوتا ہے‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(أَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا؟ بَلْ مَا شَائَ اللّٰہُ وَحْدَہُ)’’کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا ہے بلکہ تم یوں کہو:(مَا شَائَ اللّٰہُ وَحْدَہُ)’’ اکیلا اللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے وہی ہوتا ہے ‘‘[2] چوتھا مرتبہ:اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشادہے:﴿ اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ ‘‘[3] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے کہ(خَلَقَ اللّٰہُ کُلَّ صَانِعٍ وَّصَنْعَتَہُ) ’’ اللہ تعالیٰ نے ہی ہر کاریگر اور اسکی کاریگری کو پیدا فرمایا ہے۔ ‘‘[4] تقدیر کے بارے میں عقیدۂ سلف تقدیر کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ اوراس نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں مقرر فرمادی تھیں۔ ان کی موت کے اوقات، ان کا رزق کتنا ہو گا اور کہاں سے ملے گا ؟ وہ کونسے اعمال کریں گے ؟اور یہ بھی لکھ دیا تھا کہ وہ خوش نصیبی اور بد بختی میں سے کس کو اختیار گے۔ سو ہر چیز اس نے واضح طور پر اپنی کتاب(لوح محفوظ)میں ضبط کر رکھی ہے۔ لہذا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ اور جو کچھ ہوچکا ہے، نیز جو کچھ ہونے والا ہے اور جو نہیں ہوا اگر ہوتا تو کیسے ہوتا ؟ سب کچھ اسے معلوم ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ نیز سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ بندوں کیلئے بھی مشیئت اور قدرت ہے جس کے ذریعے وہ ان اعمال کوسر انجام دیتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کو طاقت وہمت عطا کی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیئت وچاہت کے بغیر |