ِتَابٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’(اے نبی !)تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو۔اور(اے لوگو!)جو کام بھی تم کر رہے ہوتے ہو ، ہم ہر وقت تمہارے پاس موجود ہوتے ہیں جبکہ تم اس میں مشغول ہوتے ہو۔اور زمین وآسمان میں کوئی ذرہ برابر چیز بھی ایسی نہیں جو کہ آپ کے رب سے چھپی رہ سکے۔اور ذرہ سے بھی چھوٹی یا اس سے بڑی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو واضح کتاب(لوحِ محفوظ)میں نہ ہو۔‘‘[1] اورحضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الْخَلاَئِقِ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ) ’’اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تقدیروں کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تحریر فرمایا دیا تھا۔ ‘‘[2] اور حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (یَا بُنَیَّ ! إِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِیْقَۃِ الْإِیْمَانِ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ) یعنی ’’ اے میرے پیارے بیٹے ! تم ایمان کی حقیقت کا ذائقہ محسوس نہیں کر سکتے یہاں تک کہ اس بات پر یقین کر لو کہ جو چیز تمہارے مقدر میں لکھی گئی ہے وہ تم سے چوکنے والی نہیں۔اور جو چیز تمہارے مقدر میں نہیں لکھی گئی وہ تمہیں ملنے والی نہیں۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ ، فَقَالَ لَہُ اکْتُبْ ، قَالَ:رَبِّ ! وَمَا ذَا أَکْتُبُ ؟ قَالَ اکْتُبْ مَقَادِیْرَ کُلِّ شَیْئٍ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ) ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا۔پھر اس سے کہا:لکھو۔اس نے کہا:اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:قیامت تک آنے والی ہر چیز کی تقدیروں کو لکھو۔‘‘ بعد ازاں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا:(مَنْ مَّاتَ عَلٰی غَیْرِ ہٰذَا فَلَیْسَ مِنِّیْ)’’ جس شخص کی موت اس(اعتقاد)کے علاوہ کسی اور(اعتقاد)پر آئے گی تواس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘[3] |