پیدا کیا۔ اور ان کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(خُلِقَتِ الْمَلاَئِکَۃُ مِنْ نُّوْرٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ) ’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا اور جنوں کو بھڑکنے والے شعلے سے۔اور آدم کو اس چیز سے جس کا وصف تمہارے لئے بیان کیا گیا(یعنی مٹی سے)‘‘[1] 2۔فرشتوں کی تعداد:فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں کہ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ إِلاَّ ہُوَ﴾ ’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘[2] اورحضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِنِّیْ أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ ، وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ ، أَطَّتِ السَّمَائُ وَحُقَّ لَہَا أَنْ تَئِطَّ، مَا فِیْہَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِع إِلَّا وَ مَلَکٌ وَاضِعٌ جَبْہَتَہُ سَاجِدًا لِلّٰہِ) ’’بے شک میں وہ چیز دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اورمیں وہ چیز سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔آسمان چرچرایا اور اسے حق ہے کہ وہ چرچرائے(کیونکہ)اس میں چار انگلیوں کے برابر کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو۔‘‘[3] اور واقعۂ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ جب انھیں ساتویں آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ البیت المعمور کی طرف ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔اورالبیت المعمور کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یَدْخُلُہُ فِیْ کُلِّ یَوِمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ لاَ یَعُوْدُوْنَ إِلَیْہِ) ’’ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جوپھر کبھی دوبارہ اس کی طرف نہیں پلٹتے۔ ‘‘[4] اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یُؤْتٰی بِالنَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، لَہَا سَبْعُوْنَ أَلْفَ زِمَامٍ ، مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَجُرُّوْنَہَا) ’’ قیامت کے روز جہنم کو لایا جائے گا ، اس کی ستر ہزار لگامیں ہو نگی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہو نگے |