اس کے حق میں بھی قبول کی جاتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (دَعْوَۃُ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ لِأخِیْہِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ مُسْتَجَابَۃٌ ، عِنْدَ رَأْسِہِ مَلَکٌ مُّوَکَّلٌ ، کُلَّمَا دَعَا لِأخِیْہِ بِخَیْرٍ قَالَ الْمَلِکُ الْمُوَکَّلُ:آمِیْن وَلَکَ بِمِثْل) ’’ مسلمان کی اپنے بھائی کیلئے غائبانہ دعا قبول کی جاتی ہے۔اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ متعین ہوتاہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کیلئے دعائے خیر کرتا ہے تو متعین فرشتہ کہتا ہے (آمین)اور تمھیں بھی یہی خیر نصیب ہو۔‘‘[1] جن لوگوں کی دعائیں خاص طور پر قبول کی جاتی ہیں سامعین کرام! آخر میں ان لوگوں کا تذکرہ سن لیجئے جن کی دعائیں اللہ تعالی خاص طور پر قبول کرتا ہے۔ (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ لَا تُرَدُّ:دَعْوَۃُ الْوَالِدِ لِوَلَدِہٖ ، وَدَعْوَۃُ الصَّائِمِ ، وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ) ’’ تین دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔اپنی اولاد کیلئے والد کی دعا ، روزہ دار کی دعا اور مسافر کی دعا۔‘‘[2] (۲)ایک روایت میں فرمایا: (ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ:دَعْوَۃُ الصَّائِمِ ، وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ ، وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ) ’’ تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں:روزہ دار کی دعا ، مظلوم کی دعا اور مسافر کی دعا۔‘‘[3] مظلوم کی پکار کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (اِتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ) ’’ مظلوم کی(بد)دعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘[4] اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ثَلَاثَۃٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ:اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ ، وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ ، وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُومِ) ’’ تین افراد کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں:روزہ دار جب تک افطاری نہ کرے۔عادل حکمران۔مظلوم کی پکار۔‘‘[5] |