Maktaba Wahhabi

167 - 492
اس آیت کریمہ میں ایمان کو وسیلہ بنا کر دعا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور جہاں تک اعمال صالحہ کو وسیلہ بنا کر دعا کرنے کا تعلق ہے تو اس کی سب سے بہتر دلیل اصحاب الغار کا وہ واقعہ ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ایک غار میں جو تین لوگ پھنس گئے تھے ان میں سے ہر ایک نے اپنے اس عمل کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے دعا کی جو اس نے خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے کیا تھا۔چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی دعائیں قبول کر لیں اور انھیں اس مشکل سے نجات دے دی جس میں وہ پھنسے ہوئے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین آدمی پیدل جا رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے انھیں پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لینا پڑی۔جب وہ غار کے اندر چلے گئے تو پہاڑ سے ایک پتھر غار کے منہ پر آکر گرا جس سے اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب وہ آپس میں کہنے لگے:دیکھو ! وہ نیک اعمال جو تم نے خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے کئے ہوں ، آج انہی اعمال کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کرکے دعا کرو ، شاید وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دے دے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔میں بکریاں چراتااور ان کیلئے دودھ لے آتا۔اور شام کو جب میں گھر واپس لوٹتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پیش کرتا ، پھر اپنے بچوں کو دیتا۔ایک دن میں چراہگاہ دور ہونے کی وجہ سے گھر تاخیر سے پہنچا۔تو میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں۔میں نے دودھ لیا اور ان کے سر کے قریب کھڑا ہو کر ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا۔اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھاکہ میں خود انھیں جگاؤں اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میں بچوں کو ان سے پہلے دودھ پلاؤں حالانکہ بچے بھوک کی وجہ سے میرے پیروں کے قریب بلبلا رہے تھے۔لہذا میں اسی طرح ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا ، وہ سوئے رہے اور میرے بچے بلبلاتے رہے حتی کہ فجر ہو گئی۔(اے اللہ!)تجھے معلوم ہے کہ میں نے وہ عمل صرف تیری رضا کیلئے کیا تھا۔لہذا تو اس پتھر کو کم از کم اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں۔چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کی اور اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ وہ آسمان کو دیکھ سکتے تھے… باقی دونوں آدمیوں میں سے ایک نے اپنے مزدور سے حسن سلوک کی نیکی پیش کرتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا کی تو وہ پتھر تھوڑا سا اور کھسک گیا لیکن اب بھی وہ باہر نہ نکل سکتے تھے۔اب تیسرے آدمی نے دعا کی تو اس نے اپنی ایک چچا زاد سے محبت کا ذکر کیا جس میں نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ وہ اس سے بد کاری کرنے کے عین قریب پہنچ گیا۔لڑکی نے اسے اللہ تعالی کا خوف دلایا تو اس نے بد کاری کا ارادہ ترک کر دیا۔چنانچہ اللہ تعالی نے اُس پتھر کو غار کے منہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا۔‘‘[1]
Flag Counter