Maktaba Wahhabi

161 - 492
ہے اور نہ ہی استغناء ممکن ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سب سے زیادہ عاجز قرار دیا جو دعا سے عاجز آ جائے۔ ارشاد فرمایا:(أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَائِ ، وَأَبْخَلُہُمْ مَّنْ بَخِلَ بِالسَّلَامِ) ’’ لوگوں میں سب سے زیادہ عاجز وہ ہے جو دعا سے تھک جائے۔اور ان میں سب سے زیادہ بخیل وہ ہے جو سلام کہنے میں بخل کرے۔‘‘[1] 11۔ بددعا نہیں کرنی چاہئے ، نہ اپنے اوپر ، نہ اپنی اولاد پر اور نہ ہی اپنے مال پر۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(لَا تَدْعُوا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلْی أَوْلَادِکُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلٰی أَمْوَالِکُمْ ، لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللّٰہِ سَاعَۃً یُسْأَلُ فِیْہَا عَطَائً فَیَسْتَجِیْبُ لَکُمْ)وزاد أبو داؤد:(وَلَا تَدْعُوا عَلٰی خَدَمِکُمْ) ’’ تم اپنے اوپر بد دعا نہ کرو ، اپنی اولاد پر بد دعا نہ کرو اور اپنے مالوں پر بددعا نہ کرو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ عین اسی وقت اللہ کے ہاں قبولیت کی گھڑی ہو تو وہ تمھاری بد دعا قبول کر لے۔‘‘ ابو داؤد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ’’ اپنے خادموں پر بھی بد دعا نہ کرو۔‘‘[2] 12۔ دنیا میں سزا پانے کی دعا نہ کریں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو نہایت کمزور اور لاغر ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:کیا تم نے اللہ تعالی سے کوئی دعا کی تھی یا کسی چیز کا سوال کیا تھا ؟ اس نے کہا:جی ہاں ، میں یہ دعا کرتا تھا کہ اے اللہ ! تو نے جو سزا مجھے آخرت میں دینی ہے وہ اسی دنیا میں ہی دے دے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ عجیب بات ہے ! تم تو اس کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔تم نے یہ دعا کیوں نہ کی: (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ)اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے دعا کی تو اللہ تعالی نے اسے شفا دے دی۔[3] قبولیت ِ دعا کے اسباب قبولیتِ دعا کے کئی اسباب ہیں۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ دعا کرنے والا مذکورہ آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دعا کرے۔اس کے علاوہ کچھ اور اسباب بھی ہیں جنھیں ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
Flag Counter