Maktaba Wahhabi

159 - 492
ہے۔ وہ یقینا بہت سننے والا اور نہایت قریب ہے۔اس کا نام بابرکت اور اس کی بزرگی بہت بلند ہے۔‘‘[1] اور ’ اعتداء ‘ کی دوسری صورت یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کے الفاظ میں حد سے تجاوز کرے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے دیکھا:اے اللہ ! میں جب جنت میں داخل ہو جاؤں تو مجھے اس کی دائیں طرف سفید محل نصیب کرنا۔تو انھوں نے کہا:میرے بیٹے ! اللہ تعالی سے بس جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ طلب کرو۔کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: (سَیَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ قَوْمٌ یَّعْتَدُوْنَ فِی الطَّہُورِ وَالدُّعَائِ) ’’ میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے۔‘‘[2] 7۔ دعامیں دل ودماغ حاضر ہو اور قبولیت پر پختہ یقین ہو دعا کرنے والے کو چاہئے کہ دوران دعا اس کا دل ودماغ حاضر ہو، غافل نہ ہو۔اور اسے اللہ تعالی پر یقین کامل ہو کہ وہ اس کی دعا کو ضرور قبول کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(أُدْعُوا اللّٰہَ وَأَنْتُمْ مُّوقِنُونَ بِالْإِجَابَۃِ ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَجِیْبُ دُعَائً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ) ’’ تم اللہ تعالی سے دعا اس طرح کیا کرو کہ تمھیں قبولیت پر پورا یقین ہو۔اور یہ جان لو کہ اللہ تعالی وہ دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اور لا پروا دل سے نکلے۔‘‘[3] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (إِذَا دَعَا أَحَدُکُمْ فَلَا یَقُلْ:اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی إِنْ شِئْتَ ، اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِی إِنْ شِئْتَ ، لِیَعْزِمِ الْمَسْأَلَۃَ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا مُکْرِہَ لَہُ) ’’ جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یہ نہ کہے:اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے ، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔بلکہ وہ پورے عزم ویقین کے ساتھ سوال کرے کیونکہ اللہ تعالی کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔‘‘[4] 8۔ ہر دعا تین تین بار کرنا دعا کرتے ہوئے ہر دعا تین تین بار کرنی چاہئے۔کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی
Flag Counter