’’ یہ قرآن مجید ایک مضبوط رسی ہے جس کا ایک سرا اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں۔پس تم اسے مضبوطی سے پکڑ لو ، تم کبھی اس کے بعد ہلاک ہو گے اورنہ گمراہ ہو گے۔‘‘[1] اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:(اِتَّخِذْ کِتَابَ اللّٰہِ إِمَامًا ، وَارْضَ بِہِ قَاضِیًا ، فَإِنَّہُ الَّذِیْ اسْتَخْلَفَ فِیْکُمْ رَسُولُکُمْ ، شَفِیْعٌ مُّطَاعٌ) ’’ تم کتاب اللہ کو امام بناؤ اور اسے قاضی تسلیم کرو۔کیونکہ وہی تو ہے جس کو تمھارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے چھوڑا۔یہ کتاب شفاعت کرے گی ، لہذا اسی کی اطاعت وفرمانبرداری کی جانی چاہئے۔‘‘ اور جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث کو سننے ، انھیں ذہن نشین کرنے اور لوگوں تک پہنچانے والوں کیلئے یوں دعا فرمائی: (نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَئً ا سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاہَا وَحَفِظَہَا وَبَلَّغَہَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إلِیٰ مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ) ’’ اللہ تعالی اس شخص کا چہرہ تروتازہ اور حسین وجمیل کردے جس نے میری بات سنی پھر اسے ذہن نشین کر لیا اور اسے اچھی طرح حفظ کر کے آگے پہنچایا۔کیونکہ بسا اوقات ایک شخص ایک مسئلے کو سمجھتا ہے اور اسے اس شخص تک پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے۔‘‘[2] اور جب امت میں اختلافات ہوں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے وہ کیا ہے ؟ سنئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ! (عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ ، تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ) ’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا۔اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ [3] عزیز بھائیو ! یہ سارے دلائل اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کتاب وسنت کو سمجھنا اور ان کے معانی ومفاہیم کو دل کی گہرائیوں میں اتارنا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کیلئے از حد ضروری ہے۔لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ |