Maktaba Wahhabi

110 - 492
سنت ِ رسول کی اتباع کے ساتھ ہی آتا ہے ، نہ کہ کثرتِ تعداد ومقدارکے ساتھ۔ یہ وہ حسن ہے کہ جس کے ساتھ بندے کو اطمینانِ قلب نصیب ہوتا اور راحت وسکون اور لذت ومٹھاس کا احساس ہوتا ہے۔ پانچواں اصول ہم شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ ’عبادت ‘انسان کا مقصد ِ تخلیق ہے ، لہذا اسے پوری زندگی اِس طرح گزارنی چاہئے کہ وہ عبادت بن جائے۔وہ ہر لمحہ اللہ تعالی کی رضا کا طلبگار ہو۔اور جہاں کہیں بھی ہو اور جو بھی کام کرے اس کی منشاء کے مطابق کرے۔ایسا نہ ہو کہ بعض مواقع پر تو وہ اللہ تعالی کی عبادت کرلے ، پھر دیگر اوقات میں وہ اس کی عبادت کو بھول جائے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ٭ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ ﴾ ’’ پس اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہئے۔اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔‘‘[1] جبکہ بعض لوگ اللہ تعالی کی عبادت اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر کرتے ہیں ، اگر انھیں وہ مفادات حاصل ہوتے رہیں تو عبادت کرتے رہتے ہیں۔اور اگر ایسا نہ ہو ، بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آزماشیں آنا شروع ہو جائیں تو پھر وہ عبادت کو ترک کردیتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ﴾ ’’ اور بعض لوگ اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں۔اگر انھیں دنیاوی بھلائی ملتی ہے تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش انھیں آ لیتی ہے تو(کفر کی طرف)پلٹ جاتے ہیں۔اپنی دنیا اور آخرت دونوں گنوا دیتے ہیں۔یہی واضح نقصان ہے۔‘‘[2] اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ہر حال میں اپنی عبادت پر قائم رہنے کی توفیق دے۔اور عبادت کے متعلق ان پانچوں اصولوں کی پابندی کرنے کی توفیق دے۔ دوسرا خطبہ سامعین گرامی ! آپ نے پہلے خطبہ میں عبادت وبندگی کے متعلق ہماری گزارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں
Flag Counter