Maktaba Wahhabi

106 - 492
چاہئے۔کیونکہ اللہ تعالی نے ان صفات کے حاملین کو بہت ہی عظیم خوشخبری دی ہے کہ ﴿ اُوْلٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا ٭خٰلِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ﴾ ’’یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بالا خانے دئیے جائیں گے۔جہاں انھیں دعا سلام پہنچایا جائے گا۔اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔‘‘[1] عبادت وبندگی کے چند اصول وضوابط اب ہم اللہ رب العزت کی عبادت وبندگی کے چند اصول وضوابط ذکر کرتے ہیں۔یہ وہ اصول وضوابط ہیں کہ اگر ان کی پابندی کی جائے تو عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول ہوتی ہے۔ پہلا اصول: عبادت میں اخلاص لازم ہے۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَمَآ اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلاَۃَ وَیُؤتُوْا الزَّکَاۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾ ’’انہیں محض اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں۔اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔‘‘[2] ’ اخلاص ‘کا معنی ہے:پاک صاف کرنا۔یعنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا اور اسے شرک اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا۔عبادت میں کسی کو شریک کرنے یا دکھلاوے کی نیت کرنے سے عبادت ضائع ہو جاتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ ،مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ) ’’میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں۔اور جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘[3] یاد رہے کہ ’ عبادت ‘ میں اخلاص کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کرنے والے اللہ ہی سے مدد طلب کریں اور اسی پر توکل اور بھروسہ کریں۔یہ وہ بات ہے کہ جس کا اقرار ہر مسلمان ہر نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہوئے کہتا
Flag Counter