Maktaba Wahhabi

25 - 111
تک کے تجدیدی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پورا اندازہ نہیں لگایا اور نادانستہ ان کو پھر وہی غذا دے دی ہے جس سے مکمل پرہیز کرنے کی ضرورت تھی حاشا کہ مجھے فی نفسہ اس تصوف پر اعتراض نہیں ہے جو ان حضرات نے پیش کیا وہ بجائے خود اپنی روح کے اعتبار سے اسلام کا اصلی تصوف ہے اور اس کی نوعیت احسان سے کچھ مختلف نہیں ہے لیکن جس چیز کو میں لائق پرہیز کہہ رہاہوں وہ متصوفانہ رموز و اشارات اور متصوفانہ طریقہ سے مشابہت رکھنے والے طریقوں کو جاری رکھنا یہ ظاہر ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف اس خاص قالب کو محتاج نہیں ہے اس کے لئے دوسرا قالب بھی ممکن ہے اس کے لئے زبان بھی دوسری اختیار کی جاسکتی ہے رموز و اشارات سے بھی اجتناب کیا جاسکتا ہے پیر مریدی اور اس سلسلے کی تمام عملی شکلوں کو بھی چھوڑ کر دوسری شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں پھر کیا ضرورت ہے اس پرانے قالب کو اختیار کرنے پر اصرار کیا جائے جس میں مدتہائے دراز سے جاہلی تصوف کی گرم بازاری ہورہی ہے اسکی کثرت اشاعت نے مسلمانوں کو جن سخت اعتقادی و اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کیا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں ہے اب حال یہ ہوچکا ہے کہ ایک شخص خواہ کتنی بھی تعلیم دے بہرحال یہ قالب استعمال کرتے ہی وہ تمام بیماریاں پھر عود کر آتی ہیں جو صدیوں کے رواج عام سے اسکے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں۔ پس جس طرح پانی جیسی حلال چیز بھی اس وقت ممنوع ہوجاتی ہے جب وہ مریض کے لئے نقصان دہ ہو اسی طرح یہ قالب بھی مباح ہونے کے باوجود اس بناء پر قطعی چھوڑ دینے کے قابل ہوگیا ہے اس کے لباس میں مسلمانوں کو افیون کاچسکا لگا گیا ہے اور اس کے قریب جاتے ہی ان مزمن مریضوں کو پھر وہی چینا بیگم یاد آجاتی ہے جوصدیوں ان کو تھپک تھپک کر سلاتی رہی ہیں بیعت کا معاملہ پیش آنے کے بعد کچھ دیر نہیں لگتی کہ مریدوں میں وہ ذہنیت پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے جو مریدی کے ساتھ مختص ہوچکی ہے یعنی سجادہ رنگین کن
Flag Counter