رسول سے حاصل شدہ جس بات پر بھی عمل کرلیا جائے وہی بہتر ہے، فقہاء مذاہب وغیرہ کی موشگافیوں کی معرفت پر کوئی عمل موقوف نہیں ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں : اور ہم نے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م اجمعین اور ان کے اختلافات کے بارے میں بتایا تاریخ و سیرت کی کتابیں ان سے بھری پڑی ہیں اور ان میں گندے پانی میں شکار کرنے والوں کے لیے بھی جو گنجائشیں ہیں ایسے ہی ائمہ سلف رضوان اللہ علیہم اور خصوصیت سے ائمہ متبوعین کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ان میں سے بعض کی تنقیص کی گئی یا تعصب کے نتیجے میں ان میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ لیکن جو بنظر انصاف غور کرے گا وہ اس کے برخلاف پائے گا۔ مثلاً یہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں ، وہ اہل الرائی میں جس مرتبہ کے ہیں ہم اسے اچھی طرح جانتے ہیں ، امیر المؤمنین فی الحدیث شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ ان کی توثیق کرتے ہیں اور ان کے بیان کے خواہش مند ہیں اور جب انہیں امام ابوحنیفہ کی وفات کی خبر پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ’’ان کے ساتھ کوفہ کی فقہ کا خاتمہ ہوگیا، اللہ ان پر اور ہم پر اپنا فضل و رحم فرمائے۔‘‘ ایک شخص نے یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ سے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک علم الٰہی کے بغیر کسی دوسری شئی سے زینت حاصل نہیں ہوسکتی۔ بخدا ہم جب ان میں کوئی بھلی بات دیکھتے تو لیتے تھے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اختلاف اور آراء و اقوال میں عدم موافقت کسی مخالف کی بھلی بات قبول کرنے اور کوئی قول اس کی طرف منسوب کرنے سے مانع نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے عثمان البنی کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ وہ ’’مقارب ‘‘[1] شخص تھا اور ابوشبرمہ کے بارے میں پوچھا گیا تو یہی جواب دیا۔ |