Maktaba Wahhabi

215 - 224
حصین بن عبد الرحمن کا واقعہ: حصین بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ میں سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے پاس تھا تو انہوں نے فرمایا کہ کس نے اس ستارے کو دیکھا ہے جو رات کوٹوٹا؟ میں نے کہا کہ کہ میں پھر میں نے کہا کہ میں تہجد میں نہیں تھا بلکہ مجھے ڈس لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا پھر کیا کیا؟ میں نے کہا کہ جھاڑ اور دم کرلیا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں ایسا کیا؟ میں نے جواب دیا: ایک حدیث کے سبب جو امام شعبی نے ہم سے بیان کی ہے۔ انہوں نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ میں نے کہا کہ انہوں نے بریدہ بن حصیب کے واسطے سے ہمیں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا رقیۃ إلا من عین أوحمۃ‘‘ یعنی جھاڑ پھونک صرف نظر بد اور زہر کے سبب جائز ہے تو انہوں نے فرمایا کہ جس نے خود شنیدہ حدیث پر عمل کرلیا بہتر کیا۔‘‘ میرے محترم بھائیو! اللہ تم پر رحم کرے۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی اس بات پر دھیان دو کہ ’’جس نے خود شنیدہ حدیث پر عمل کرلیا بہتر کیا۔‘‘ یعنی جس نے اس علم کو حاصل کرلیا جو اسے پہنچا تھا اور اسی پر عمل بھی کرلیا تو اس نے اچھا کیا، کیونکہ اس نے اپنے فرض کو نبھایا اور اپنے حاصل شدہ علم پر عمل کیا، برخلاف اس شخص کے جو نادانی پر عمل کرتا ہے، یا برخلاف اس شخص کے جو علم کے باوجود عمل نہیں کرتا، ایسا شخص تو غلط کار اور گناہ گار ہے۔ علامہ سلیمان بن عبد اللہ بن شیخ الإسلام محمد بن عبد الوہاب نجدیرحمہ اللہ کتاب التوحید کی شرح ’’تیسیر العزیز الحمید‘‘ (ص ۱۰۴، ۱۰۵) میں [1] لکھتے ہیں کہ: ’’اس واقعہ سے سلف صالحین کے علم، حسن ادب اور سیرت و کردار کی فضیلت اور تعلیم و تبلیغ میں تلطف، اور ایک جائز و مشروع مسئلہ کے بالمقابل دوسرے افضل طریقۂ کار کی رہنمائی پر روشنی پڑتی ہے۔ نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے
Flag Counter