Maktaba Wahhabi

214 - 224
قربت کے باوجود ان کی ہیبت کے سبب ہم ان سے بات نہیں کرپاتے تھے، اگر مسکراتے تو پروئے ہوئے موتیوں جیسے دانتوں سے مسکراتے، دین داروں کی عزت کرتے اور غریبوں سے محبت کرتے تھے، طاقتور ان سے اپنے باطل کی امید نہیں لگاتا تھا اور کمزور ان کے عدل سے ناامید نہیں ہوتا تھا۔ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا ہے جب کہ رات نے اپنے پردے لٹکالئے اور ستارے جھلملاگئے وہ اپنے مصلیٰ پر داڑھی پکڑے جھوم رہے تھے، اور سانپ کاٹے ہوئے کے مانند بل کھارہے تھے اور غمزدہ کے مانند رو رہے تھے، گویا ان کی آواز میرے کانوں میں اب تک گونج رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں : اے میرے رب، اے میرے رب، اور دنیا کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں : تو نے مجھے چھیڑا ہے، تو نے میری طرف جھانکا ہے، افسوس در افسوس، تو میرے سوا کسی اور کو فریب دے، میں نے تجھے تین بائن طلاق دے دی ہے تیری عمر کوتاہ ہے، تیری مجلس حقیر ہے، تیرا خیال معمولی ہے، آہ آہ، توشے کی کمی، سفر کی دوری اور راہ کی وحشت! یہ سن کر حضرت معاویہ کے آنسو ان کی داڑھی پر ٹپک پڑے اور وہ ان پر قابو نہیں پارہے تھے، اور انہیں اپنی آستین سے پونچھ رہے تھے، بلکہ رونے کے سبب حاضرین مجلس کا گلا بھی رندھ گیا، تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حقیقتاً ابوالحسن (علی) رحمہ اللہ ایسے ہی تھے۔ ضرار، اب تم مجھے بتاؤ کہ ان کی وفات پر تمہارے غم کی کیفیت کیا ہے؟ ضرار بن حمزہ نے کہا کہ اس ماں کے غم کی مانند ہے جس کی آغوش میں اس کا بچہ[1] ذبح کردیا جائے کہ نہ اس کا آنسو تھم رہا ہو اور نہ اس کے غم کو سکون ہورہا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مکے بعد سلف صالحین: یہ صحابہرضی اللہ عنہ م اجمعین میں اختلاف اور اس کا سلیقہ اور اس اختلاف میں ان کے موقف اور اس وقت تعامل کے سلسلے میں ان کے ادب کے مہ پارے اور نمونے تھے، ان کے بعد سلف صالحین رضوان اللہ علیہم بھی اسی روش پر چلے۔
Flag Counter