شامی شخص نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے پاس پایا اور اسے قتل کردیا یا دونوں کو قتل کردیا اور امیر معاویہ کے لیے اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا، تو انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کے پاس لکھ بھیجا کہ اس بارے میں حضرت علی سے مسئلہ دریافت کریں ۔ جب ابوموسیٰ اشعری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ میرے علاقے کا معاملہ تو نہیں ہے، لہٰذا پہلے تم مجھے اس کی حقیقت بتاؤ، تب ابوموسیٰ اشعری نے کہا کہ میرے پاس حضرت معاویہ کا خط آیا ہے کہ آپ سے معلوم کروں ، تو حضرت علی نے فرمایا کہ میں ابو الحسن ہوں ، اگر وہ چار گواہ نہ پیش کرے تو اسے قصاص کے لیے مقتول کے ورثہ کے حوالہ کردیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا خون مکمل طور پر حرام کیا ہے، لہٰذا جس پر کسی مسلمان کا قتل کرنا ثابت ہوا اور وہ دعویٰ کرتا ہو کہ اس کا قتل واجب تھا تو اس کی یہ بات تسلیم نہیں ہوگی جب تک وہ اپنے دعوے کا ثبوت نہ پیش کرے، کیونکہ اس دعویٰ سے وہ اپنے اوپر سے قصاص اٹھا دینا چاہتا ہے۔ امیر معاویہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رو رہے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے رب کی آغوش رحمت میں چلے جانے کے بعد جب حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے جھگڑے بند ہوگئے تو ضرار بن حمزہ کنانی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آتے ہیں ، معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف پوچھتے ہیں ۔ ضرار کہتے ہیں کہ امیر المؤمنین مجھے معاف فرمائیے، یعنی مجھ سے یہ بات نہ پوچھئے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نہیں میں تمہیں معاف کروں گا۔ ضرار بن حمزہ کہتے ہیں کہ جب بیان کئے بغیر کوئی چارہ نہیں تو سنیے: بخدا وہ بلند ہمت اور بڑے طاقت ور تھے، ان کی بات فیصلہ کن اور حکم عادلانہ ہوتا تھا، ان کے پہلوؤں سے علم کے چشمے ابل رہے تھے اور حکمت ان کے اردگرد سے رواں دواں تھی، وہ دنیا اور اس کی شادابی سے وحشت کرتے تھے، اور رات اور اس کی تاریکی سے انسیت رکھتے تھے، واللہ وہ بڑے اشکبار اور دراز فکر تھے، اپنی ہتھیلیاں الٹتے پلٹے اور اپنے نفس کو مخاطب کرتے تھے، انہیں معمولی لباس اور موٹا کھانا پسند تھا، واللہ وہ ہمارے جیسے ہی ایک فرد تھے، جب ہم آتے تو ہمیں قریب کرلیتے اور جب ہم کچھ سوال کرتے تو جواب دیتے تھے، ہماری ان کی |