پرسوں مسٹرمانٹیگو سے ۶ بجے شام کو انڈیا آفس میں ملاقات ہوئی۔ نہایت ہمدردی سے گفتگو کی۔ ا ور اپنی نسبت کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور رہوں گا۔ اور فرمایا وہ دن دور نہیں جب میری جگہ کوئی مسلمان سکریٹری آف اسٹیٹ ہو۔ زیادہ سے زیادہ ۶ برس کی دیر ہے۔ فرمایا کہ اگر ایرانی انگلش معاہدہ کے طریقہ پر عراق میں کاروائی ہو تو پسند کروگے ؟سید حسن صاحب نے کہا کہ ہم ہندوستانی تو سمجھتے ہیں کہ ایران ختم ہوچکا۔ وزیر ہند نے کہا کہ نہیں نہیں۔ یہ غلطی ہے۔ تم چند سال میں دیکھو گے کہ ایران اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا۔ محمد علی صاحب نے برمحل کہا کہ کھڑا ہوگا مگر دوسروں کو دھکیل نہیں سکے گا۔ مجھے ایک مثال بھی دیجیے جہاں کوئی یورپین طاقت جاکر واپس آئی ہو، فرمایا مگر ہنس کر ”میسور“ ہیلو گولینڈ “لینے گویا یہ ظرافت تھی، ایک بات انہوں نے تسلیم کی اور آج کل کسی ایسے مسلمان یا ہندو سے ملاقات نہیں ہوئی جو ہندوستان سے آیا ہواور اس نے یہ نہیں بیان کیا ہو کہ مسئلہ خلافت پر تمام ہندومسلمان متفق ہیں اور شدید جوش وخروش پیدا ہے۔ آخر میں مَیں نے عرض کیا کہ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی کی نسبت کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جو مالطہ میں بے قصور نظر بند ہیں۔ حالانکہ لفظ پالیٹکس کا ان کی ذات کی نسبت اطلاق ان کی تحقیر ہے۔ “وہی جواب دیا جو صوبہ متحدہ کی کونسل میں مل چکاہے کہ برٹش گورنمنٹ نے نہیں بلکہ عرب گورنمنٹ نے ان کو قید کیاہے، میں نے عرض کیاکہ یہ عجیب تماشا ہے، مستند عرب ارکان حکومت سے جب ہم لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے اس سے انکار کیا۔ محمد علی صاحب نے خوب کہا کہ ”اگرعرب گورنمنٹ ان کو پسند نہیں کرتی تھی تو ہندوستان کے سپرد کردیتی، مالطہ تو اس کے حُدود مقبوضات میں نہیں۔ “ مسٹر مانٹیگو نے اپنی سکریٹری کی طرف اشارہ کیاکہ اس کی یادداشت لکھ لو، سوا گھنٹہ تک گفتگو رہی۔ محمد علی وسید حسین صاحب صفائی اور دلیری سے باتیں کرتے رہے۔ |