بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَحَمَدُهٗ وَ نُصَلِّيْ عَلٰي رَسُوْلِهٖ الْكَرِيْم حرفِ آغاز سورہ فاتحہ ام الکتاب ہے۔ جوہرِ قرآن ہے۔ اس جامع اور بلیغ دعا کے ان الفاظ پر غور کیجیے: ﴿ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾﴾ ’’ہمیں سیدھی راہ دکھا، اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے کرم کیا، اُن لوگوں کی راہ نہیں جن پر غضب نازل کیا گیا اور نہ گمراہوں کی راہ۔‘‘ یہ نہیں کہا کہ ہمیں نیکیوں اور بھلائیوں کی راہ دکھا، یہ نہیں کہا کہ ہمیں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی راہ دکھا، بلکہ ان برگزیدہ انسانوں کا ذکر کیا جو بھلائی کے پیکر ہوتے ہیں، جو خیرِ مجسم ہیں۔ انبیاء اور صلحاء کے تذکار ہی سے صراطِ مستقیم کی ٹھیک طور پر وضاحت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ایمان اور عمل صالح کی حقیقت انبیاء اور اولیاء کے حالاتِ زندگی ہی سے اُجاگر کی گئی ہے۔ ایک ایک پیغمبر کا نام لے لے کر اس کے حالاتِ زندگی پر سوچ بچار کی دعوت دی گئی: ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ﴾ (19: 41) ’’کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کرو۔‘‘ |