Maktaba Wahhabi

99 - 665
آوازیں اس پچھتر سال میں ایک دن بھی خاموش نہ ہوئی ہوں، جس نے ایک سو سات سال کا طویل زمانہ عمر بچپن سے لے کر دم واپسیں تک مقدس اسلام کے مقدس علوم کی تعلیم وتعلم میں بسر کردیا۔ ہائے ہائے خدا کے جلیل القدر آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم(دل وجانم فداے نامش باد) کی پاک حدیثوں کے اکیلے ہاں ہاں اکیلے حافظ کو ہم ہزار من مٹی کے نیچے دبا کے آتے ہیں اور یہی ہاتھ جو اُس خلیق اور مقدس انسان سے مصافحے کرتے تھے آج اُسے قبر کے سپرد کررہے ہیں۔ ”مرنے والے خدا تجھے فردوس بریں میں جگہ دے اور تجھے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب عطا کرے۔ہمارے پاس تیرے لیے، تیرے احسانات کے لیے کچھ نہیں سوا اس کے کہ ہم ایصال ثواب کریں اور دعا کریں کہ خدا تیری بے لوث دینی خدمتوں کے بڑے بھاری سلسلے کو قبول فرمائے اور اس کا تجھے اجر عظیم بخشے۔ظاہراً تو تو معبود حقیقی کےپاس تنہا تنہا چلا ہے، جہاں نہ تیرے آٹھ لاکھ معتقدوں میں سے کوئی ساتھ ہے، نہ تیرے ہزار درہزار شاگردوں میں سے کوئی ہمراہ۔تیری اولاد اور تیرے غم گسار بادیدہ پرنم تجھے تک رہے ہیں کہ تو اپنی کٹھن اور دشوار گزار منزل میں بے یار ومددگار چلا جارہا ہے، کوئی نہیں جو تیرا ساتھ دے اور کوئی نہیں جو تیری ہمراہ ہی اختیار کرے، لیکن درحقیقت باطناً ایک انمول زادِ آخرت تیرے ساتھ ہے اور تو خدا کے ہاں یقیناً اُسی فرحت وشادمانی کے ساتھ جارہا ہے جیسا کہ ایک فتح مند شہنشاہ دن رات کی یلغاروں اور حملوں کے بعد اپنے غنیم پر فتح پاتا اور پھر بادل خور سند اپنے دارالخلافت کی طرف مراجعت کرتا ہے۔تو نے بے شک اُس سچے عشق سے جو تجھے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اپنی بزرگ اور عالی شان لائف خدمت اسلام میں صرف کی اور سچے ارشاد (عُلَمَاء أُمّتي كأنبياء بني إسرائيل) کا اس گئے گزرے زمانے میں نمونہ بن کے ہمیں دکھادیا۔اسی کا اجر ہوگا جو ہمیشہ کی مسرتوں کا تجھے وارث بنائے گا اور تجھے تمام کلفتوں سے نجات دے گا۔افسوس تیرے بعد ہمیں چاروں طرف سناٹا ہی سناٹا نظر آتا ہے۔آہ یا تو وہ زمانہ تھا کہ ہلال اسلام آسمان دنیا پر ماہ دو ہفتہ بن گیا تھا اور اُس کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی سے سارا عالم بقعہ نور بنا ہوا تھا۔اور یااب یہ وقت ہے کہ وہ ماہ کامل ہماری نظروں سے نہاں ہوگیا ہے۔اس کی ہلکی اور بدلی میں چھپے ہوئے چاند کی سی چاندنی ہمیں کبھی دکھائی دے جاتی ہے اور وہی ہمارے بر ق وباد کی طرح دوڑنے والی رقیب قوموں کی نگاہیں خیرہ کردیتی ہے۔ ”حبش خاں کے پھاٹک سے شمس العلماء مولوی سید نذیر حسین صاحب کا جنازہ نہیں اٹھایا گیا بلکہ ایک شور قیامت اٹھایا گیا ہے جو اسلامی دنیا میں صدیوں تک برقراررہے گا۔مرحوم کے بعد ان کا کوئی ہم پلہ جانشین نظر نہیں آتا جسے علم حدیث کی اس مناسبت ذاتی کے سبب جو شمس العلماء میں قدرت نے ودیعت کی تھی اُن کا قائم مقام قراردیا جاسکے۔اُن کے دماغ کی ساخت ہی اس ڈھنگ
Flag Counter