Maktaba Wahhabi

100 - 665
کی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا سمندر سماگیا۔جن لوگوں نے آپ کو حدیث شریف پڑھاتے دیکھا ہے انھیں اس بات کا بخوبی تجربہ ہوگیا ہے کہ اس بڑھاپے کے زمانے میں آپ کی یادداشت کا کیا عالم تھا اور کس صفائی اور روانی کے ساتھ آپ گھنٹوں پڑھاتے رہتے تھے۔ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پڑھانے میں جس وقت کسی حدیث کی نسبت تکرار ہوتی تھی اور یہ ضرورت آگے پڑتی تھی کہ اس حدیث کے موافق یا مخالف کتنی حدیثیں ہیں اور کس کس جگہ ہیں، آپ فوراً بتادیتے تھے کہ فلاں حدیث فلاں کتاب کے فلاں باب سے نکال لو، اورفلاں حدیث فلاں کتاب کے فلاں باب سے۔اسی طرح وہ تمام حدیثیں جو اس متنازع فیہ حدیث کے متعلق کتب صحاب میں ہوتی چند منٹوں میں نکل آتی تھیں۔ایک جیدحافظ قرآن کو کسی آیت کے پتا دینے میں تامل ہونا ممکن تھا لیکن شمس العلماء کے لیے بالکل ناممکن تھا کہ اُن میں سے کسی حدیث کا یونہی سامطلب بتایا جائے اور وہ بجنسہ صحاح میں اُسی وقت نہ نکلوادیں۔اور پھر ایک دو یا دس بیس حدیثوں کی نسبت نہیں حدیث شریف کی ساتوں صحیح کتابوں کی نسبت آپ کے حافظے کی یہی کیفیت تھی۔اسی وجہ سے درحقیقت شمس العلماء کی ذات مسلمانوں کے لیے فخر ومباہات کا باعث تھی کیونکہ جس طرح کلام اللہ کا یہ خاص معجزہ ہے کہ ہرزمانہ میں اور ہر وقت میں لاکھوں سینے اس کی حفاظت کے لیے محفوظ تختیاں بنے رہتے ہیں، اُسی طرح کلام رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی حفاظت کرنے والا بھی زمانے میں کوئی نہ کوئی موجود ہی رہتا ہے، جو حافظے کی قوت سے نگہبانی کرتا ہے، جیسا کہ اس زمانے میں اللہ بخشے حضرت شیخ العلماء تھے۔درحقیقت یہ اسلام کی زندہ برکات ہیں جو ہر زمانہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔اس کے مقابل کوئی دوسرا مذہب والا ہرگز ایسا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کتاب جسے وہ آسمانی سمجھتا ہو زمانے کی دست برد سے اسی طرح محفوظ رہی جیسا کہ قرآن مجید قرآن شریف تو خیر خالق اکبر کا خاص کلام ہے۔ جس کی نسبت وہ وعدہ فرماتا ہے۔ (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْر وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) اور جو اسی وعدہ ربانی کی نسبت سرولیم میورصاحب جیسے دشمنوں سے اپنے تیرہ سو برس سے بلاشائبہ تحریف بجنسہ محفوظ چلے آنے کا اقرار کراچکی ہو، اور وہ علانیہ تسلیم کرچکے ہوں کہ ” دنیا میں اور کوئی ایسی کتاب نہیں جو اتنے بڑے عرصے تک اسی طرح محفوظ رہی“ ”لیکن حدیث جو حضور سرورعالم( صلی اللہ علیہ وسلم) کا کلام ہے جو آپ نے بہ مصداق (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى، إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَى) ارشاد فرمایا اور اسے آپ کے جلیل القدر صحابہ اورتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اکٹھا کیا، اُس کے حافظ بھی اس امت عالیہ میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔کیاکوئی عیسائی دعویٰ کرسکتا ہے کہ اُن مضامین کو چھوڑ کر جو ابتدائی صدی عیسوی کے خوش اعتقاد عیسائیوں میں مقبول تھے اور جن کا ابھی تک کچھ کچھ حصہ چلا آتا ہے، صرف بائبل کے کبھی کسی زمانے میں ایسے
Flag Counter