کسی گذشتہ پرچے میں لکھ چکے ہیں۔اب دہلی کے ایک پرائیویٹ خط سے معلوم ہوا کہ حضرت ممدوح 13۔اکتوبر کو رہگر اے عالم جادوانی ہوئے، انا للہ واناالیہ راجعون۔حق تو یوں ہے کہ آپ سلف صالحین کی یادگار باقی تھے۔علم وعمل اور زہدواتقا میں پایہ بلند رکھتے تھے۔سن مبارک سو سے متجاوز تھا اور یہ کہنا داخل مبالغہ نہیں کہ آپ دہلی مرحوم کے آخری نوحہ خواں تھے۔انھوں نے اپنی آنکھوں سے ان بزرگ واروں کی صورتیں دیکھی تھیں، بلکہ اُن کی ہم طرحی کا شرف حاصل کیا تھا جن سے دہلی کو فی الحقیقت فخر ہے اور جو دہلی کیا ہندوستان بھر کے لیے مایہ ناز تھے۔جن دنوں سرسید مرحوم نے آثار الصناوید لکھی ہے اُن دنوں دہلی واقعی اہل کمال سے سرتاسرمامور تھی اور ہر ایک فن کے باکمال آدمی موجود تھے۔باوجود اس فراوانی کے مولانا اُس زمانے میں بھی اس لائق سمجھے گئے تھے کہ اُن کا نام اُن چیدہ بزرگ واروں کی فہرست میں داخل ہو جو ہندوستان کے لیے موجب افتخار شمار ہوتے ہیں۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ اس کساد بازاری فضل وہنر میں اُن کی قدروقیمت کیا ہونی چاہیے۔مولانا مغفور نے باوجود کبر سنی اور ضعف پیری کے سلسلہ درس وتدریس آخری وقت تک نہ چھوڑا اور اطراف واکناف کے طلباء جو علم حدیث حاصل کرنے کے شوق میں ممالک دوردراز سے آپ کی خدمت میں آتے تھے ہمیشہ مستفیض ہوتے تھے۔“ اب اخبار دارالعلوم دہلی مطبوعہ 17۔اکتوبر 1902ء مطابق 15 رجب 1320ھ کا مضمون پڑھیے، جس کا عنوان ہے، ”وفات حسرت آیات جناب شمس العلماء مولانا مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی۔“ مضمون در و ہجر کی تاب رقم نہیں ہے شور ہائے ہائے صریر قلم نہیں ”بڑے افسوس سے لکھا جاتا ہے کہ 13۔اکتوبر کی شام کو شمس العلماء حضرت مولانا مولوی سید نذیرحسین صاحب محدث دہلوی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔یہ منحوس شام مسلمانان عالم میں قیامت تک یادگار رہے گی جس میں حدیث نبوی کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ ”آہ اے بدنصیب قوم تیرے سارے فخر مٹ گئے۔تجھے ناز تھا کہ اس گئے گزرے زمانے میں تو ایسے عظیم الشان شخص کا وجود باوجود رکھتی ہے جو شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ اسحاق صاحب کی بابرکت مجلسوں کا فیض یافتہ اور حدیث اور فقہ اسلام کا لاثانی عالم تھا، جس نے دس نہ بیس اکٹھے پچھتر سال سلسلہ تدریس جاری رکھا ہو، جس کے متبرک حلقہ درس سے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی |