کیاہے، نہ تعزیتی اداریہ۔ یہ اداریےاورمضامین حضرت میاں صاحب اور ان کی خدمات کے بارےمیں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے یہاںشائع کیاجارہےہیں۔پہلے ملاحظہ فرمائیے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ کااداریہ جواسکے چیف ایڈیٹر نواب محسن الملک مولوی مہدی علی خان نے 23۔اکتوبر 1902ء کے شمارےمیں ”افسوس ناک واقعہ“ کے عنوان سے لکھا۔ ”اس ہفتے کے واقعات میں ایک نہایت اندوہناک واقعہ جوغالباً ہندوستان کے مسلمانوں میں نہایت حسرت وافسوس کےساتھ پڑھاجائےگا یہ ہے کہ شمس العلماء مولوی سیدنذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے ایک سودس برس کی عمرمیں دس مہینے کی طویل علالت کےبعد 10۔رجب یوم دوشنبہ کومابین المغرب والعشاء انتقال فرمایااوراُن کی وفات سےہندوستان میں حدیث کاچراغ گل ہوگیا، اناللّٰه وانااليه راجعون آپ قصبہ سورج گڑھ ضلع مونگیر کے خاندان سادات میں سے تھے جن کےمورث عالمگیرکے عہدمیں عہدہ قضاپرمامور تھے۔ابتدائی تعلیم غالباً آپ نےاپنے وطن میں حاصل کی۔عنوان شباب میں آپ دہلی میں واردہوئےجواس وقت ہندوستان میں علم اور شائستگی کامرکز تھااوردینیات کی کتابیں حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب اور مولانا عبدالخالق صاحب سے پڑھیں، اگرچہ آپ کو بالاستعیاب [1] شاہ صاحب کے حلقہ درس میں شریک ہونے کاموقع نہ ملا مگر اس میں شک نہیں کہ آپ کو حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں نسبت تلمذ ہے چنانچہ مولاناقطب الدین نے اپنی کسی تصنیف میں اس امر کی تصریح کی ہے۔ آپ ایک جید فاضل اور مسلم الثبوت محدث تھے۔روایات فقہی کا جو استحضار آپ کو حاصل تھا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔آپ کے مناقب میں صرف اس قدر بیان کردینا کافی ہے کہ آپ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک علم حدیث کی تدریس میں مصروف رہے اور عمر کا ایک معتدبہ حصہ اس متبرک علم کی خدمت میں بسرا ہوا۔ ہزارہا طالبان حدیث آپ کے حلقہ درس میں شریک ہوکر فیضیاب ہوئے۔ہماری دعا ہے کہ خداوند تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے اوراُن کے پسماندوں کو صبر جمیل کی توفیق دے۔“ اخبار وکیل امرتسر 17۔اکتوبر 1902ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: ”شمس العلماء مولانا مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کی علالت طبع کی خبر ہم اپنے |