نواب سید صدیق حسن خاں اور شیخ حسین بن محسن یمنی دونوں میاں شریف حسین کی سندمیں ان کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ حلیہ یہ تھا:چوڑی ہڈی، چہرہ، آنکھیں، پیشانی، سر، ناک، کان، قدسب متوسط۔ڈاڑھی گنجان اورگول۔بدن بلغمی، رنگ سیاہی مائل، سر اورمونچھ منڈواتے تھے۔ لباس یہ تھا:پورے سر پر دوپلی ٹوپی، دلی کی طرف کاانگر کھا، سفید پاجامہ، ہاتھ میں بڑا سا سفید رومال۔جاڑوں میں دولائی اور روئی داروگلا۔ 6۔جمادی الاخریٰ 1304ھ(2۔مارچ 1887ء) کو باپ کےسامنے وفات پائی۔[1] اناللّٰه وانااليه راجعون میاں صاحب کی ایک صاحب زادی تھی، جن کی شادی میرشاہجہاں سےہوئی تھی۔صاحبزادی کی تین بیٹیاں تھیں۔ایک بیٹا تھا، جسکانام بدرالاسلام تھا۔دس گیارہ سال کی عمر میں وفات پاگیاتھا۔میاں صاحب اپنے اس نواسے سے بہت محبت کرتے تھے۔ میاں سیدشریف حسین کےدوبیٹے تھے۔ایک حافظ سیدعبدالسلام اوردوسرےسیدنورالحسن۔ان کےعلاوہ بیٹیاں بھی تھیں۔ میاں صاحب کے دوبھائی تھےجوان سے عمر میں چھوٹے تھے۔منجھلے کانام مولوی حافظ سیدسجادحسین تھا۔انھوں نے بڑی عمر میں قرآن حفظ کیاتھا۔عابدوزاہداورمتقی بزرگ تھے۔دوسرے بھائی کانام مولوی سید توسل حسین تھا۔یہ بھی بہت نیک تھے۔میاں صاحب جو سب سے بڑے تھے، سب کے بعد فوت ہوئے۔ اخبارات کاخراجِ عقیدت حضرت میاں صاحب کی وفات کی خبر اس وقت کے ہندوستان کےتقریباً تمام اخبارات نے نمایاں طور سےشائع کی اور اداریوں میں شدیدافسوس کااظہارکیا۔الٰہ آباد(یوپی)کاانگریزی اخبار”پانیر“ مشہور اخبار تھا۔اس نے تعزیتی اداریہ لکھا۔لیکن میاں صاحب کےسوانح نگارمولانافضل حسین بہاری نے صرف تین اخباروں کےاداریے نقل کیے ہیں۔ایک علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کا، ایک اخبار وکیل امرتسر کااور ایک اخباردارالعلوم دہلی کا۔ان کے اداریوں کی بھی تلخیص کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تمام اخبارات کے تعزیتی مضامین یااداریے جمع کیےجائیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے، اس لیے انھوں نے مذکورہ اخبارات کےمضامین کے علاوہ اورکسی اخبارکانہ کوئی مضمون شائع |