Maktaba Wahhabi

95 - 665
وہ کہتے ہیں: آخری وقت میں مجھ سے بہت کچھ فرمایا۔مگر میری سمجھ میں کوئی بات نہ آئی۔البتہ اتنی بات سمجھ میں آئی: کا خیال رکھنا۔(اَشَدُّ حُبًّا لِّلّـٰهِ) کاخیال رکھنا۔باقی سب فضول اور بے کار ہے، سب کو دفع کرو۔“ وفات اورتکفین وتدفین مولانا تلطف حسین فرماتے ہیں:10۔رجب 1320ھ(13اکتوبر 1902ء) کودوشنبہ کےدن مغرب کی اذان ہوئی۔میں نماز کے لیے مسجد میں چلاگیا۔نماز سے فارغ ہوکرواپس آیاتو معلوم ہوا کہ علم وفضل کایہ نیر درخشاں غروب ہوچکا ہے۔اناللّٰه وانااليه راجعون کفن وغیرہ سب چیزیں پہلے سےموجود تھیں۔وصیت کے مطابق فوراً غسل د ے کر کفن پہنایا گیااور میت کو چارپائی پر ڈال کر مسجد میں لاکر رکھ دیاگیا۔ اس وقت بے شمار لوگ مسجد میں موجود تھے۔دوسرےدن سہ شنبہ کو نوبجے عیدگاہ میں نماز جنازہ اداکی گئی اور قبرستان شیدی پورہ میں ان کےصاحبزادے مولانا شریف حسین کی قبرکےقریب اس عالم اجل کو دفن کردیاگیا۔ (اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ) جنازے میں ہرمسلک فقہی کےکثیر تعداد میں لوگ شریک تھے۔نمازجنازہ ان کے پوتے مولانا سیدعبدالسلام نےپڑھائی۔ اولاد واحفاد اور بھائی حضرت میاں صاحب کے ایک ہی بیٹے تھے اور وہ تھے مولانا سید شریف حسین۔ابتدا سےانتہا تک تمام مروّجہ تعلیم انھوں نے اپنے والد عالی قدر سےحاصل کی اورزندگی بھرلکھنے پڑھنے کا شغل جاری رکھا۔باپ سے ہر وقت کے انسلاک اور استفادے کی وجہ سے معلومات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔بالخصوص کتب منقول میں بڑی مہارت تھی اور مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے۔میاں صاحب کی خدمت میں بہت سے استفتا آتے تھے، ان میں سے متعدد کے جواب میاں حسین ہی دیتے تھے کافی عرصہ طلبا کوپڑھاتے بھی رہے۔خوش نویس تھے اور خط نستعلیق کے ماہر۔خوشنویسی میں دہلی کے معروف خطاط میر پنجہ کش کے شاگردتھے۔نہایت متین، کم سخن اورسادگی پسند تھے۔پنجگانہ نماز کی امامت وہی کراتے تھے۔نماز میں تعدیل ارکان کا اس درجہ اہتمام فرماتے کہ صبح کی نماز تقریباًٍ پون گھنٹے میں اور ظہر کی نصف گھنٹے میں ختم کرتے۔میاں صاحب ان کی غیر موجودگی میں اکثر فرماتے کہ جیسا میراامام ہے، ایسا دہلی سے کلکتہ تک نہیں ملے گا۔
Flag Counter