میں کمزوری زیادہ ہوگئی تو تسبیح ہاتھ سے گرجاتی تھی اوربے چینی سے اسے تلاش کرتے تھے، جب اردگرد بیٹھنے والوں کومعلوم ہوگیا کہ تسبیح ہاتھ سے گرجانے کی وجہ سے انھیں پریشانی ہوتی ہے تو وہ فوراً تسبیح اٹھاکر ان کےہاتھ میں تھما دیتے اوروہ پڑھنے میں مصروف ہوجاتے۔اگرتسبیح جلدی سے ہاتھ میں نہ آتی توانگلیوں پرپڑھتے رہتے۔کبھی تسبیح خود ہی بستر پر رکھ دیتے، کبھی گلے میں ڈال لیتے۔غرض زبان پر ہروقت تسبیح وتمحید کاسلسلہ جاری رہتا۔بے ہوشی کی حالت میں بھی ذکرالٰہی سےان کی انگلیاں حرکت میں رہتیں اورلب اللہ کی یاد میں ہلتے رہتے۔ مولانا تلطف حسین بیان کرتے ہیں کہ ایک دن مجھ سے فرمایا گھٹنوں میں درد بہت ہے۔میں نے عرض کیا حضور کوکیاتکلیف ہے۔آپ کوخوب معلوم ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام پر کتنی تکلیفوں کادور گزرا، دعافرمائیے اللہ تعالیٰ آپ کے اعمال قبول فرمائے، لغزشوں سےدرگزر کرےاورمغفرت فرمائے۔یہ سن کرمسکرائے اورفرمایاسچ کہا آپ نے۔پھر دعا کرنے لگے اورساری تکلیف بھول گئے۔ مولاناممدوح مزیدفرماتےہیں کہ ایک دن میں نےعرض کیا: حضور کوکسی چیز کی ضرورت ہے تو حکم کیجئے، میں حاضر کروں۔فرمایا: کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ حضرت کے داماد میر شاہ جہاں صاحب اوربیٹی اورنواسیوں نے بیماری کےدنوں میں آپ کی بے حدخدمت کی۔آپ نے اپنی صاحب زادی اورنواسیوں کووصیت فرمائی کہ میرے مرنے کے بعدصبرکرنا اور یہ دعا کثرت سےکرنا: اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ مياں صاحب كے سوانح نگار مولانافضل حسین بہاری لکھتے ہیں کہ مولانا تلطف حسین بہاری نے دہلی میں مجھے بتایاکہ جب حضرت مرحوم کے شاگردوں کے نام مجھے یاد آتے تو میں ان کے سامنے ان کاذکر کرتا اورپوچھتا کہ آپ کوان میں سے کسی سے کوئی شکایت تو نہیں ہے؟فرماتے نہیں صاحب مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔پھراپنے شاگردوں میں سے کسی کا نام خودانھیں یادآجاتا تو پوچھتے کہ”فلاں کہاں ہے اورکس حال میں ہے؟ اس کا کوئی خط آیا یا نہیں؟“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے شاگردوں کاانھیں زندگی کے آخری دور تک خیال رہا۔ مولانا تلطف حسین کے بقول کسی انداز میں ایک دن ان سے ان کے مقام تدفین کے بارے میں عرض کیاگیا اوربتایاگیا کہ جناب شاہ عبدالعزیز صاحب کے مقبرے میں بھی جگہ کاانتظام کیاجاچکا ہے۔ جواب میں فرمایاکہ”انتقال کے بعد تم صرف اتنا کیجیو کہ سنت کے مطابق اپنے ہاتھ سے مجھے غسل دواور تکفین کرو۔پھر بے شک اپنے گھر چلے جاؤ۔اس کے بعد جس کے دل میں جو آئے کرے۔“ |