Maktaba Wahhabi

93 - 665
بے حد دھیمے مزاج کے عالم تھے اور اس قسم کی بحثوں میں نہیں پڑتے تھے، اس لیے انھوں نے اس کتاب کو اپنے نام سے شائع کرنے سے انکار کردیا۔لیکن مولوی محمد شاہ نے ان کی بہت زیادہ منت خوشامدکی تو وہ ازراہ شرافت خاموش ہوگئے اور ان کے نام سےکتاب معرض اشاعت میں آگئی۔ میاں صاحب کو یہ کتاب پہنچی تو انھوں نے کتاب کی زبان اوراسلوب تحریر کو دیکھ کرفرمایا کہ یہ کتاب نواب قطب الدین کی تصنیف نہیں ہے، بلکہ محمدشاہ پنجابی کی تصنیف ہے۔ حضرت میاں صاحب نے اس کتاب کے جواب میں”معیارالحق“ لکھی جواپنے موضوع کی نہایت اہم اور پُر از معلومات کتاب ہے۔اس میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےفقہی، مقام ومرتبے کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور جوباتیں حضرت امام کی طرف منسوب کی گئی ہیں ان کےمتعلق بھی تفصیل سےگفتگو کی گئی ہے۔ ائمہ اربعہ کی تقلید کےبارےمیں خودائمہ کے نقطہ نظر سےاصل حقیقت کومصرح کیا گیا ہے۔ہربات باحوالہ بیان کی گئی ہے۔کتاب کے مطالعہ سے پتاچلتاہے کہ حضرت میاں صاحب کا دائرہ معلومات کس قدروسیع تھا اورمختلف موضوعات کی کتابوں پر وہ کتنی عمیق نگاہ رکھتے تھے۔زبان کی صفائی، مطالعے کی گہرائی، بیان کی پختگی، قلم کی ششگی، اسلوب کی سنجیدگی، ان کےوہ اوصاف ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انتہائی فراوانی کے ساتھ ان کوعطا فرمائے ہیں۔ میاں صاحب کی تصنیف ”معیار الحق“ کے جواب میں مولانا ارشادحسین رام پوری نے ”انتصار الحق“ کے نام سے کتاب لکھی۔پھر انتصار الحق کےردّ میں میاں صاحب کے چار شاگردوں نے علیحدہ علیحدہ کتابیں لکھیں، وہ کتابیں ہیں:1۔براہین اثناعشر، 2۔تلخیص الانظار فی مابنی علیہ الانتصار، 3۔اختیارالحق اور4۔بحرز خار۔ بیماری اور ذکر واذکار اب آئندہ سطور میں حضرت کی بیماری کاتذکرہ۔ وفات سے دس بارہ برس پہلے میاں صاحب کے گھنٹوں میں درد ہونے لگاتھا، اس لیے ہاتھ میں چھڑی رکھنے لگے تھے اورمسجد میں زیادہ تر ڈولی میں تشریف لاتے تھے۔پھر وفات سے نو دس مہینے قبل تکلیف بڑھ گئی اور صاحب فراش ہوگئے۔آخری ایام حیات میں بے ہوشی طاری ہوجاتی تھی، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ بیماری اورسخت کمزوری میں بھی کسی قسم کی فرمائش نہیں کی اور نہ کسی سے یہ کہا کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ حضرت میاں صاحب تسبیح بالعموم ہاتھ میں رکھتے اور ذکر اذکار کرتے رہتے تھے۔آخری دنوں
Flag Counter