اب حضرت ممدوح کے لباس کی طرف آتے ہیں۔الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ بھی سوانح نگار کی زبانی سنیے۔! حج سے قبل چھوٹا سا عمامہ مخطط بہ خط سرخ وسیاہ چار خانہ مؤ اور اعظم گڑھ کا بنا ہوا پہنتے تھے۔عمامہ ایسی سادگی سے باندھا جاتا کہ درس کےوقت بار بار کھلتا اور وہ ہاتھ سے اس کے پیچ دباتے جاتے۔بسا اوقات بالکل کھل جاتا اور پھر جلدی سےسر پر لپیٹ لیتے یا اتار کر اپنے پاس رکھ لیتے۔کبھی گول ٹوپی پہنتے جس کی نوک کسی قدر اوپرکونکلی ہوتی۔کرتہ سامنے چاک والا زیب تن فرماتے جو بالکل معمولی کپڑے کا ہوتا، ایک تکمہ اور گنڈی لگی ہوئی، زانو کےبرابراور کبھی اس سےبھی اونچا۔ زیادہ تر ڈھیلے پانئچوں والا پاجامہ پہنتے، جسے غلطہ کہا جاتاہے، آدھی پنڈلی تک اونچا۔ پاؤں میں جوتا ادھوڑی کے چمڑے کادلّی کا بنا ہوا، پاؤں سے تھوڑا سا بڑا۔اس کی ایڑی دبالیتے۔ دھوپ میں کپڑے کی چار خانہ چادر سرپر رکھتے۔(ان کے استاذ مکرم حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب بھی اسی طرح کرتے تھے) چھتری کبھی نہیں لگائی۔مکان محلہ پھاٹک حبش خاں میں تھا اور جامع مسجد وہاں سے تقریباً ایک میل تھی، لیکن سخت موسم گرما میں نماز جمعہ کے لیے گھر سے پیدل جامع مسجد جاتے۔ جاڑوں میں چھینٹ کاروئی دار انگر کھا پہنتے جسے”دگلا“ کہا جاتا ہے اور اوپردو لائی اوڑھتے۔ سفر حج کے لیے گھر سے تہبند باندھ کر چلے اور پھر اس سے تقریباً بیس برس بعد تک زندہ رہے، لیکن پائجامہ نہیں پہنا۔آخر وقت تک تہبند ہی باندھتے رہے۔لباس اور عام طریق زندگی کے لیے فرمایا کرتےتھے: (كُنْ في الدُّنْياكأحد مِنْ النَّاس) (دنیا میں اسی طرح رہو، جس طرح عام لوگ رہتے ہیں۔) کسی معاملے میں تکلف نہ فرماتے۔سادگی سے رہتے۔زندگی کے تمام معاملات میں تکلفات سے ہمیشہ نفرت رہی۔ تصنیف وتالیف: مندرجہ ذیل سطور میں حضرت کی تصنیف وتالیف کے بارے میں چند گزارشات۔ حضرت میاں صاحب کےسوانح نگار شاگرد مولانا فضل حسین بہاری مرحوم ومغفور نے عنوانِ ضمیمہ جات کے تحت ضمیمہ اوّل میں ان کی تصانیف کی فہرست دی ہے اور لکھا ہے کہ : ”میاں صاحب کی تصنیف وتالیف کی صحیح تعداد تو غالباً کوئی شخص بتانہیں سکتا۔وفات سے ستائیس برس پہلے انھوں نے فرمایا تھا کہ اگر میرے کل فتوے کی نقلیں رکھی جاتیں تو |