تھا۔قاری ایک رکوع تلاوت کرکے پہلے شاہ عبدالقادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ پڑھتا۔پھر حاشیہ سے”فائدہ“ پڑھتا، جس میں آیات کی شانِ نزول وغیرہ کا بیان ہوتا۔بعد ازاں حضرت میاں صاحب عام فہم طریقے سے تفسیر بیان فرماتے۔ درس قرآن کے بعد گیارہ بجے تک کتب حدیث پڑھی جاتیں، جن میں صحیح بخاری کا سبق خصوصیت سےپڑھا جاتا اور زیادہ وقت اسی میں صرف ہوتا۔صحیح بخاری کےسبق میں علماء وطلباء کی ایک بڑی جماعت شامل ہوتی، جن کی تعداد بالعموم ستر کے قریب ہوتی۔نمازوںاور کھانے کے اوقات نکال کر تمام دن درس وتدریس کاسسلسلہ چلتا۔ نمازمغرب کے بعد مکان پر تشریف لے جاتے اور فتووں کا جواب تحریر فرماتے، فتووں کی تعداد ان کے سوانح نگار کےبقول روزانہ پانچ سے بیس تک ہوتی۔یعنی کبھی پانچ چھ، کبھی دس گیارہ اور کبھی اٹھارہ بیس۔رات کو نمازعشاء کے بعد تقریباً چار گھنٹے آرام فرماتے، اس کے بعد تہجد میں مشغول ہوجاتے۔بعض دفعہ بعض فتووں کا جواب تہجد کے بعد بھی لکھتے۔وہ مصروف تریں زندگی بسر کرتے تھے اور ان کی مصروفیات خالص علمی نوعیت کی تھیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا زندگی کے آخری دور میں انھیں ضیق النفس کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا۔اس میں شدت آجاتی تو بسا اوقات طلبا سبق موقوف کردینے کی درخواست کرتے۔لیکن آپ یہ درخواست منظور نہ فرماتے۔ارشاد ہوتا چلیے پڑھیے۔یہ سلسلہ تو اسی طرح رہتا ہے۔ہم دم بھر میں مرتے ہیں اور دم بھر میں جیتے ہیں۔سبق شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد طبیعت بحال ہوجاتی اور پھر اسی جوش وجذبے سے پڑھانے لگتے۔ وفات سے بارہ تیرہ برس پہلے ثقل سماع کاعارضہ ہوگیا تھا لیکن بصارت بالکل ٹھیک رہی۔تمام عمر عینک نہیں لگائی۔ہمیشہ سادہ غذا کھائی اور جفا کشی ومحنت میں زندگی بسر کی۔ حضرت کا سراپااور لباس حضرت میاں صاحب کےسوانح نگار مولانا فضل حسین بہاری جو اُن کے شاگرد بھی تھے، ان کا سراپا اس طرح بیان کرتے ہیں:قد مائل بہ درازی، ہڈیاں بہت چوڑی، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ جوانی میں بہت تنومند ہوں گے، چہرہ لمبا، آنکھیں متوسط، پیشانی کشادہ، سرمتوسط، ناک اونچی اور لمبی، کان بڑے بڑے، داڑھی کے بال کم، نہ گنجان نہ بھاری، گردن متوسط، سینہ متوسط، ہاتھ پاؤں، شانے، بازو اور ران لمبے، پنڈلیاں بھی کچھ لمبی لیکن نہایت مناسب انداز سے۔پنڈلیاں صاف تھیں، ان پر بال نہیں تھے۔سر اور مونچھ منڈھےہوئے، رنگ گندمی، چلتے بہت تیز تھے۔ |