Maktaba Wahhabi

88 - 665
مرزا قادیانی کے عقائد تحریر کر کے اپنے استاد محترم شیخ الکل حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب کی خدمت میں پیش کیا کہ جو شخص یہ عقائد رکھتا ہے، وہ مسلمان ہے یا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔۔۔؟میاں صاحب نے تحریری جواب دیا کہ ان عقائد کا حامل شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس کےبعد مولانا بٹالوی نے ہندوستان کے ہر مسلک کے اکثرعلمائے کرام سےذاتی طور پر رابطہ پیدا کیا اور خود ان کے پاس پہنچے۔بعض اصحاب علم کی خدمت میں اپنے نمائندے بھیجے اور اس فتوے پر ان کے دستخط کرائے۔چنانچہ مرزا قادیانی نے مولانا محمد حسین بٹالوی کے خلاف لکھنا شروع کیا اور ان کےلیے(اول المكفرين)کے الفاظ تحریر کیے۔ یعنی یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مجھے کافر قراردیا۔ مرزاصاحب نے یہ بھی لکھا کہ میاں نذیر حسین کو اسی شخص نے میرے متعلق اطلاع دی اور میرے خلاف فتویٰ مرتب کر کے ان کو پیش کیا اور اس پر ان کی تصدیقی مہر لگوائی اور پھر اسے ملک کے تمام مسالک فقہ کے علماء تک پہنچایا اور اس کے نتیجے میں مجھے کافر گردانا گیا۔ اس کے بعد 29 ستمبر1891ء کو مرزا قادیانی دہلی گئے اور بازار ریلی ماراں میں ٹھہرے۔ فتواے تکفیر کی وجہ سے شہر میں ان کی سخت مخالفت ہورہی تھی۔ انھوں نے 2۔اکتوبر 1891ءکو ایک اشتہار شائع کیا جس میں حضرت میاں صاحب کو مناظر کا چیلنج دیا میاں صاحب نے یہ چیلنج قبول کیا۔ لیکن مرزا صاحب میدان میں نہیں آئے۔اس وقت مولانا محمد حسین بٹالوی بھی دہلی پہنچ چکے تھے۔یہ ایک طویل قصہ ہے۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف جو اولیں فتواے تکفیر مولانا محمد حسین بٹالوی نے مرتب کیا تھا، اس پر حضرت میاں صاحب نے اپنی مہر ثبت فرمائی تھی اور پھر یہ معاملہ بہت آگے بڑھ گیا تھا۔مرزا قادیانی نے اپنی تحریروں میں اپنی عادت کے مطابق ان کے بارے میں نہایت ناشائستہ الفاظ استعمال کیے۔یہ ایک طویل موضوع ہے۔اس کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں۔صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ حضرت میاں صاحب کی بے شمار خدمات دینیہ میں سے ایک خدمت یہ بھی ہے کہ انھوں نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ وقت کی پابندی حضرت میاں صاحب کی تمام زندگی علم و عمل سے تعبیر تھی اور اس کے بہت سے واقعات سے ہم آگاہ ہو چکے ہیں۔وہ وقت کے نہایت پابند تھے، ان کے درس و تدریس کے اوقات کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ وہ ان کا آغاز درس قرآن سے کرتے تھے نماز فجر کے بعد مسجد میں قرآن کا درس دیتے جس میں اس محلے کے اور دوسرے محلوں کے لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ طلبا بھی اس میں شرکت کرتے۔ حاضرین حلقہ بنا کر بیٹھتے اور ہر شخص کے سامنے ایک ایک مترجم قرآن ہوتا
Flag Counter