آیا تھا اور آپ نے اسے پہنا تھا حالانکہ روم میں اس وقت سوائے نصاریٰ کے دوسری کوئی قوم آباد نہ تھی۔ بعض لوگ اوپلے(پاتھی) سے کھانا پکانے کو منع کرتے تھے، لیکن میاں صاحب نے فتویٰ دیا کہ یا ماکول اللحم حیوانات مثلاً اونٹ، بھینس، گائے، بکری کا پیشاب اور گوبرپاک ہے اور اوپلے بھینس اور گائے کے گوبر سے بنائے جاتے ہیں، اس لیے ان سے کھانا پکانا جائز ہے۔ بات یہ ہے کہ اوپلے کو اگر ناپاک قررادے دیا جائے اور اس سے کھانا پکانا ناجائز ہو تو غریب لوگ سخت مشکل میں پھنس جائیں۔اسی قسم کے معاملات ہیں جن کا مجتہد کو خیال رہتا ہے اور زمانے کی ضروریات اور حالات اس کے مد نظر ہوتے ہیں اور شریعت کے نقطہ نظر سے وہ پیش آمدہ مسائل پر غور کرتا ہے۔ سرکاری ملازمت اختیار کرنے کے سلسلے میں بھی میاں صاحب لوگوں کی طبائع کا جائزہ لیتے تھے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی ان کے ذہین تریں شاگرد تھے۔ تحصیل علم کے بعد وہ اپنے وطن آئے تو ملازمت اختیار کر لی۔ حضرت میاں صاحب کو پتا چلا تو انھیں خط لکھا کہ”تم نے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن کے لیے پڑھی تھی کہ نوکری کرو۔“چناچہ مولان ممدوح نے ملازمت ترک کردی اور پھر کبھی اس کا خیال بھی نہیں آیا۔ لیکن اپنے ایک اور شاگرد سید عبدالعزیز صمدنی تحصیل دار ہوئے تو نہایت خوشی کا اظہار فرمایا اور انھیں لکھا کہ آپ بہت اچھے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ اب یتیموں، غریبوں اور حق داروں کا خيال رکھیں۔ کسی کو آپ کے عہدے کی وجہ سے تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے کہ ایک شاگرد کی ملازمت پر ناراضی کا اظہارکیا اور دوسرے کی ملازمت پر خوش ہوئے؟ یہ ناراضی اور خوشی حضرت میاں صاحب کی مردم شناسی کی بہت بڑی دلیل ہے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی ابتدا ہی سے محققانہ ذہن رکھتے تھے اور مختلف مسائل سے متعلق تحقیق کے جوہر سے مالا مال تھے۔ تحریر و نگارش میں اپنے ہم عصروں سے آگے تھے اور تیز رو قلم اور مؤثر اسلوب نگارش کے مالک تھے۔ اس لیے حضرت استاذ چاہتے تھے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتیں اس خدمت کے لیے وقف کردیں، چنانچہ انھوں نے کرم فرمااستاذ اور مردم شناس ناصح کی نصیحت پر عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان سے بہت کام لیا۔ غلام احمد قادیانی پر پہلا فتوائے کفران کا عظیم کار نامہ ہے۔ اس فتوے کو بدلائل ترتیب دیا اور پورے ملک کے علمائے کرام اس پر دستخط کرائے۔ جن لوگوں کو مولانا بٹالوی کی تحریریں پڑھنے کا موقع ملا ہے، انھیں معلوم ہے کہ وہ جس مسئلے کو موضوع بحث بناتے ہیں، اس کے تمام پہلوؤں کی نہایت خوب صورتی سے وضاحت کرتے |