لکھتے ہیں: ”سنیے! مال حلال کو لقمہ طیب کہتے ہیں، مال حرام کو لقمہ نجس۔ اور ان دونوں کی آمیزش کو مشتبہ۔ اپنے زور بازو سے جائز پیشے سے جو جنس و نقد حاصل کیا جائےوہی طیب ہے اور جو اس کے خلاف ہے، وہ ظاہر ہے۔ بس اسی پر کار بند رہیے۔ یہ مرخرفات جو جہال صوفیہ نے کلام اللہ اور کلام الرسول کے خلاف پھیلائے ہیں، ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیجیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تفسیر مولوی عبدالعزیز سلمہ سے کسی روز سن، لیجیے، وہ قرآن سے سنائیں گے(کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے غیر مسلم باشادہ کی ملازمت کی) پھریہ بھی دیکھیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہاں پرورش پائی اور کہاں کا ٹکڑا کھایا۔ ان سب امور کا خوب مطالعہ کیجیے اور زیادہ تفتیش سے اپنے قلب مطمئنہ کو پریشان نہ کیجیے، ورنہ نماز روزے میں بھی آپ کی طبیعت منتشر ہوگی اور پھر زندگی کسی کام کی نہ رہے گی۔“ سید عبدالعزیز تحصیل دار متھرااپنے حالات میں لکھتے ہیں کہ”ابتداء انگلشیہ یا کسی سرکار انسلاک کا ارادہ نہ تھا، محض میاں صاحب مرحوم کے ارشاد سے قبول کرلیا۔“ بات بالکل سیدھی ہے کہ اگر کوئی دیانت دار مسلمان ملازمت نہیں کرے گا تو اس کی جگہ کوئی غیر مسلم آجائے گا جو ممکن ہے بددیانت ہو اور لوگوں کو پریشان کرے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ غیر مسلم کی ملازمت قبول کر لینی چاہیے اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میاں صاحب کا ایک اور اجتہاد ملا حظہ ہو۔کلاک یعنی آواز والی گھڑی جب نئی نئی ایجاد ہوئی تھی تو اکثر علماء بنے اس کو مزامیرسے تشبیہ دی اور فتوی دیا کہ اسے گھر میں رکھنا جائز نہیں۔ لیکن میاں صاحب نے اسے سب سے پہلے اپنی مسجد میں آویزاں کیا اور اس کے جواز کا فتویٰ دیا۔ تار کی خبر شہادت کو بھی بعض علما نے غیر معتبر قراردیا تھا۔ میاں صاحب نے سب سے پہلے اس کی صحت اور اس کے قابل اعتبار ہونے کا فتویٰ دیا۔ انگریزی رنگ کے استعمال کو بہت سے لوگوں نے ناجائز کہا لیکن میاں صاحب نے صرف زبانی کلامی بات کو کافی نہیں سمجھا بلکہ دلی کے ماہر رنگ سازوں کو جمع کر کے ان کی مدد سے اس کے اجزا کی تحقیق کی اور جواز کا فتویٰ دیا۔ یورپین طرز کے لباس کو علمائے کرام (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) کے ذیل میں لا کر ممنوع قراردیتے تھے، لیکن میاں صاحب نے بجز اس لباس کے جو قومی یا مذہبی مختصات سے تعلق رکھتا ہے، مثلاً ان کی خاص قسم کی ٹوپی یا زناريا عورتوں کا بے پردہ لباس، باقی دوسرے لباسوں کی نسبت (لا بأس به)فرمایا اور استدلال اسی رومی جبے وغیرہ سے کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روم سے بصورت تحفہ |