Maktaba Wahhabi

83 - 665
کے لیے آیا اور وہ طلبا میں بیٹھے، انھیں پڑھا رہے ہیں مگر وہ شخص آکر کہتا کہ مولانا نذیر حسین صاحب کہاں ہیں؟بتانے کے باوجود بھی بسا اوقات اسے یقین نہ آتا کہ جس عظیم شخصیت سے وہ ملاقات کے لیے آیا ہے، وہ یہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اوصاف بوقلموں کا عظیم الشان مجموعہ بنایا تھا۔ وہ واعظ ہیں، مدرس ہیں، خطیب ہیں، محدث ہیں، محقق ہیں، مفتی ہیں، مجتہد ہیں، حاضر جواب ہیں، اردو، عربی اور فارسی کےماہر ہیں اور ان زبانوں میں تصنیف و تالیف کا ملکہ بھی رکھتے ہیں اور گفتگو میں بھی پوری مہارت حاصل ہے۔ وہ شاعر نہیں ہیں، لیکن اپنے وقت کے بہت بڑے سخن شناس ہیں اور ہزاروں شعر زبانی یاد ہیں جو نہایت مناسب موقعے پر لکھتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔ تاریخ دان ہیں۔عبادت گزار ہیں، زاہد و متقی ہیں، صارف گو اور فراخ حوصلہ ہیں۔ خوش طبیعت، درویش منش اور حکیم فرزانہ ہیں۔ دیگر علوم کے ساتھ منطق و فلسفہ میں بھی ممتاز حثیت کے مالک ہیں۔ سب کے خیر اندیش اور سب کے ہمدرد ہیں، کلمہ حق بلند کرنے میں بے حد جری اور نہی عن المنکر میں نہایت تیز ہیں، انتہائی ذہین اور وسیع المطالعہ ہیں۔ یہ اوصاف ان میں ایک خاص انداز اور انتہائی سلیقے کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر بہت بڑا احسان ہے، جس کا وہ بدرجہ غایت شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کے بہت مداح ہیں اور ان سے استفادہ فرماتے ہیں، لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں:”اس تبحرعلمی کے باوجود ذرہ سی رسی حنبلیت کی لگی رہ گئی ہے۔“ دلی ان کے زمانے کے علمائے دین کا مرکز اور بہت سی اونچی شخصیات کا مسکن تھا۔ ان میں مدرس بھی تھے فقیہ بھی تھے شاعر بھی تھے، شہزادے بھی تھے، مجاہد فی سبیل اللہ بھی تھے، خوش نویس بھی تھے، مشائخ کرام بھی تھے، صوفیاں بھی تھے، اطبا بھی تھے، قاری بھی تھے، مصنف بھی تھے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ میاں صاحب ان سب سے مراسم رکھتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی نشست و برخواست کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔اس میں البتہ شبہ نہیں کہ ان میں سے بعض یا زیادہ کے ساتھ میاں صاحب کے تعلقات قائم تھے۔ میاں صاحب اس وقت دلی آئے تھے جب دلی بلکہ پورے ہندوستان میں مغلوں کا تھوڑا بہت اثر حکمرانی قائم تھا اور وہاں کی قدیم معاشرتی روایات اور سماجی اقدار کے آثار کسی حد تک موجود تھے اور لوگ ایک دوسرے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ لیکن اس سے تیس سال بعد (1857ء) میں دہلی کی آزادی ختم ہوگئی تھی اور اس کی جگہ تمام ہندوستان پر انگریزی اقتدار کا منحوس شامیانہ تن گیا تھا۔ میاں صاحب نے دہلی کی دونوں حالتوں کو دیکھا۔اس کی آزادفضاؤں کا مشاہدہ بھی کیا اور اس کی محکومی کے وحشت ناک دور کا جائز ه بھی لیا۔
Flag Counter