مسئلہ پوچھا۔ آپ نے مسئلہ بتا دیا۔ پھر فرمایا۔ع اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی حضرت فقط عبدالمنان وزیر آبادی نابینا تھے اور میاں صاحب کے حلقہ درس میں شامل تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص دعوت کرتا تو میاں صاحب ہمیں ضرور اپنے ساتھ لے جاتے اور اپنے قریب بٹھاتے۔ وہ کھانا کھاتے جاتے اور ہڈیاں میرے آگے رکھتے جاتے۔ کھانے کے بعد مزاحاً مجھے فرماتے:”ارے اندھے توتو سب سے زیادہ کھا گیا۔“ طلبا میں کسی کو شوقین مزاج دیکھتے تو ہنس کر فرماتے:”گانٹھ۔ میں کوڑی نہیں، باقی پور کی سیر۔“ اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد سورج گڑھ گئے تو ان کے ایک ماموں نے حیرت انگیز الفاظ میں کہا:”سنا ہے تم نے دلی میں شادی کرلی ہے اور اپنے خاندان سادات کے نام کو بٹا لگا دیا ہے۔“ فرمایا: حضور! اس میں میرا کیا قصور۔ پہلے ہی سے ایسا ہوتا آیا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بی بی شہر بانوں سے بیا ہے گئے جو ہرمزکسریٰ کی بیٹی تھیں اور ابو الائمہ امام زین العابدین انہی کے بطن سے تھے۔ پھر یہ شعر پڑھے: میں ہی نہیں ہوں شیفتۂ رنگ گندمی اول سے ہوتی آئی ہے آدم کو دیکھیے ........................... نہ من تنہا دریں مے خانہ مستم جنید و شبلی و عطار ہم مست اس کے بعد انھیں سمجھایا کہ شریعت میں نسب وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔بس شرافت اور صالحیت دیکھنی چاہیے۔ پنجابی طلبا سے کوئی معاملہ پیش آتا تو فرماتے۔دیکھو صائب کہتا ہے۔ گبر و مسلماں ہم یک آبی اند واے بریں قوم کہ پنجابی اند وضع قطع میں سادگی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ میاں صاحب نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ معمولی لباس پہنتے اور صحیح معنوں میں بوریا نشین تھے۔ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھاتے تھے۔ باہر سے کوئی ناواقف آتا تو بالکل نہیں پہچان سکتا تھا کہ ان میں سے میاں صاحب کون ہیں۔ بارہا ایسا ہوتا کہ کوئی شخص ان سے ملنے |