انگلیاں پکڑے ہوئے آرہے ہو اور چند بچے تمھارے پیچھے پیچھے ہیں۔ یہ خواب منتج نتائج حسنہ ہے اور تعبیر کثرت اولاد کے ساتھ ہے۔اللہ جل شانہ تمھاری پیروی تمھاری اولاد کو بخشے گا اور میں ضرور دیکھوں گا۔اسی مسجد میں دروازےکے سامنے تم کو آتے دیکھا ہے اور تم اس جگہ آگے بیٹھے تھے، جہاں تم نے مجھ سے ایک مرتبہ سنن ابو داؤدپر بحث کی۔“[1] چنانچہ خواب کی تعبیر صحیح ثابت ہوئی اور سید عبدالعزیز کو اللہ تعالیٰ نے نیک اولاد عطا فرمائی اور ان کے بیٹے علمائے دین ہوئے اور میاں صاحب نے ان کو دیکھا۔خود سید عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں: ”میں1900ءمیں دہلی گیا تھا۔یہ گویا آخری فیض یاب ہونا تھا۔ میرے ساتھ بیٹے تھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔“[2] دوطالب علموں کا جھگڑا 1294ھ(1877ء)میں ایک بنگالی طالب علم میاں صاحب کے درس حدیث میں شامل تھا۔ اس کا نام تو تراب علی تھا لیکن میاں صاحب ازراہ مزاح اسے خاکی شاہ کہا کرتے تھے۔اس کا کسی معاملے میں ایک طالب علم سے جھگڑا ہو گیا۔ایک روز ایک دوسرے سے جھگڑتے ہوئے دونوں گتھم گتھا ہوگئے۔میاں صاحب نے دیکھا تو فوراً اٹھے اور دونوں کو الگ الگ کیا۔ پھر سامنے بٹھا کر سمجھانے لگے۔ فرمایا توبہ توبہ تم لوگ حدیث پڑھنے آئے ہو اور اس طرح لڑائی کرتےہو۔(وَكُونُوا عِبَادَ اللّٰه إِخْوَانًا)پھر حلوائی کی دکان سے چار آنے کا شکر ملا ہوا دودھ منگوا کر دونوں کو پلایا اور گلے ملا کر صلح صفائی کرائی۔ لطافت و ظرافت قرآن و حدیث کے اتنے بڑے عالم اور فنون گونا گوں کے اتنے بڑے فاضل اور بےشمار علما و صلحا کے استاذ ہونے کے باوجود حضرت میاں صاحب بے حد ظریف الطبع اور خوش مزاج تھے۔اس کی بعض مثالیں گزشتہ سطور میں بیان کی جا چکی ہیں۔دو تین اور سنیے، جن سے ان کی لطافت و ظرافت کا اندازہ ہوگا۔ایک مرتبہ ایک نابینا حافظ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کوئی مشکل سا |