Maktaba Wahhabi

79 - 665
ذلیل کرتے ہو۔ یہ ایک ایسا لطیفہ ہے، جس سے جاہل مریدوں کی ذہنیت کا پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے پیر کے لیے تو بڑے بڑے القاب استعمال کرتے ہیں اور ان کے احترام میں دور تک چلے جاتے ہیں، لیکن احکام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ان کا اسم گرامی کانوں میں پڑے تو دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے چوم لیے جائیں۔اگر یہ ہوگیا تو بیڑا پار ہے۔ شعر سے دلچسپی حضرت میاں صاحب عربی، اردو اور فارسی ادبیات سے بے حد دلچپسی رکھتے تھے اور ان تینوں زبانوں پر جو اس وقت ملک کے پڑھے لکھے حلقوں میں رائج تھیں، میاں صاحب کو عبورحاصل تھا۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی 1293ھ(18 76ء) میں میاں صاحب کےحلقہ شاگردی میں شامل تھے۔رمضان کا مہینہ آیا تو تفسیر جلالین شروع ہوئی۔بعض طلباء گھر جانے کے لیے بیتاب تھے، اس لیے روزانہ تفسیر جلالین کے دو دوپارے پڑھے جانے لگے۔پہلے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی بھی تفسیر کے سبق میں شامل تھے لیکن پھر انھوں نے سبق میں شمولیت کاسلسلہ ختم کردیاتھا۔ میاں صاحب نے ایک دن بلاکرسبق میں شمولیت نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا، جس طرح تفسیر پڑھائی جاتی ہے، وہ تو مجھے یہاں بیٹھ کر پڑھے بغیر بھی آتی ہے۔یہ جواب سن کر میاں صاحب خاموش ہوگئے۔ ایک دن تفسیر کی ایک عبارت کا مطلب میاں صاحب نے چند طلباء سے پوچھا تو وہ بتاسکے۔فرمایا مولوی عبدالعزیز کو بلاؤ۔وہ آئے تو فرمایا ہم لوگوں کو اس عبارت کا مطلب بتائیے۔انھوں نے جوڑ توڑ کر جو کچھ بتایا میاں صاحب نے اس پر اعتراض کیا تو وہ سوچنے لگے۔لیکن کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔اس پر میاں صاحب نے فرمایا: ہرپیشہ گماں مبر کہ خالی ست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد استاد کی جوتی سیدھی کیے بغیر علمی پیچیدگیاں حل نہیں ہوتیں۔یہ کہہ کر تفسیر کے اس مشکل مقام کی خود وضاحت کی اور فرمایا کہ بہت سےایسے مقامات ہوتےہیں جہاں استاذ کی ضرورت پڑتی ہے۔ پھر گفتگو کا رخ اس شعر کی طرف مڑگیا، اور میاں صاحب نے واقعہ بیان کیا کہ ریزیڈنٹ لکھنؤ کے مترجم نے نواب سعادت علی خاں کی مجلس میں کہاکہ ”شیخ سعدی نے گلستاں میں یہ عجیب بات
Flag Counter