بات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔اس لیے انھوں نے دوبارہ عرض کیا اور کہا کہ اگر آپ کو یقین نہ ہوتو ہم اس لڑکے کو پکڑ کر آپ کے سامنے لے آتے ہیں، آپ خود وہ چادر دیکھ لیں۔میاں صاحب نے نہایت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: کیا دنیا میں اس قسم کی وہی ایک چادر بنی تھی، دوسری نہیں بنی اور نہ کہیں سے ملتی ہے؟ آخر بتانے والی کو ہی ندامت ہوئی اوروہ لڑکا سب کے سامنے اس کو اوڑھے پھرتا اور اوڑھ کر مسجد میں آتا تھا۔ خط کا جواب خط کاجواب دینا بلند اخلاقی کی علامت اور خط کا جواب نہ دینا بہت بڑی بداخلاقی ہے۔حضرت میاں صاحب کو روزانہ متعدد خطوط موصول ہوتے تھے۔کسی خط میں کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تھا، کسی میں کسی کام کے سلسلے میں مشورہ لیاجاتا تھا اور کسی میں دعائے خیر کی درخواست کی جاتی تھی۔میاں صاحب بالالتزام ہرخط کا جواب لکھتے تھے۔خط میں اپنے آپ کو عاجز ومسکین ظاہر کرتے اور مخاطب کو عالم وفاضل اور منبع حسنات کی حیثیت سے یاد فرماتے۔ بعض طلباء بھی میاں صاحب سے اپنے گھر خط لکھواتے کہ وہ تندرست ہیں اور فلاں فلاں کتابیں پڑھ رہے ہیں۔یہ میاں صاحب کے حسن اخلاق کی انتہا تھی کہ طلباء کی بات ردّ نہیں کرتے تھے اوران کے کہنے پر ان کے گھر بھی خط لکھتے تھے۔ دورانِ درس ہنسی مذاق کوئی طالب علم سبق میں حاضر نہ ہوتا تو اس کے متعلق پوچھتے کہ وہ کیوں نہیں آیا۔اگر معلوم ہوجاتا کہ وہ بیمار ہے تو اس کی عیادت کے لیے اس کے پاس تشریف لے جاتے، اس کے پاس بیٹھتے، اسے تسلی دیتے، اس کے لیے دوا دارو کاانتظام کرتے۔جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجاتا، وہ تشویش میں مبتلا رہتے۔اس کی خبر گیری اور علاج معالجے میں بعض اوقات سبق کا بھی ناغہ ہوجاتا۔ بسا اوقات دوران سبق میں ہنسی مذاق کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا تھا۔کسی سے کوئی صیغہ پوچھتے، کسی سے ترکیب۔اگربتانے میں دیر ہوجاتی تو فرماتے، اگرصحیح بتاؤ گے تو مٹھائی کھلاؤں گا۔کسی سے کہتے قلاقند کھلائی جائے گی۔پھر فرماتے صحیح بتانے والے کو ایک روپیہ انعام دونگا دوروپے انعام دونگا۔اس طرح طلبا کا امتحان بھی ہوجاتا اور ان سے ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوجاتیں، جس سےطلبا بھی خوش ہوتے اور یہ عظیم استاد بھی اپنادل بہلالیتے۔اس قسم کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ |