ایک شعر پڑھا۔ایک طالب علم بول اٹھا کہ بوستاں کیا بخاری کی شرح ہے کہ اس کے شعر کا حوالہ دیا گیا ہے؟ فرمایا: تمھیں کیا معلوم کہ بوستاں کیا ہے؟مجھ سے بوستاں پڑھوتو اس کی حقیقت کاتمھیں پتاچلے۔[1] انتقام لینے سے پرہیز کوئی میاں صاحب کی تنقیص کرتا یا انھیں نقصان پہنچاتا تو اس سے انتقام نہیں لیتے تھے اور ہنسی مذاق میں بات ٹال دیتے تھے۔ایک روز نماز صبح اوردرس قرآن کے بعد ایک مطبوعہ نسخہ جیب سےنکال کرفرمایا۔یہ نظم ہمیں ایک دوست نے ڈاک میں تحفتاً بھیجی ہے۔پھر نظم حاضرین کو سنانا شروع کی جس میں میاں صاحب کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔اس کا ایک ایک شعر وہ بار بار پڑھتے اور نہایت خوشی سے ہنس ہنس کر اس کی تشریح فرماتے۔ ظہر کے بعد ایک شخص نے عرض کی کہ صبح والی نظم کے جواب میں فلاں شخص ستر(70) شعر لکھ چکے ہیں اور مزیدلکھ رہے ہیں۔ فرمایا: ارے میاں اس کا جواب لکھ کر کیا کرو گے۔اس نے ہمیں کچھ دیا ہی ہے، ہم سے کچھ لیا تو نہیں، اگرچہ گالیاں دی ہیں۔یہ فرما کراس کا جواب لکھنے سے روک دیا۔ اگر کوئی شخص میاں صاحب کی کوئی ذاتی چیزچوری کرلیتاتو یہ معلوم ہونے پر بھی کہ اس نے فلاں چیزچوری کی ہے، اس کوبالکل نہ جتاتے، نہ اشارے کنائے میں اسے کچھ کہتے، بلکہ چشم پوشی سے کام لیتے، دوسروں کو بھی اس کا ذکر کرنے سے منع فرماتے۔کسی نے لاہور سے ان کو نہایت نفیس چادر بطور تحفہ بھیجی۔ایک دن اسے اوڑھ کر مسجد میں آئے اور ایک شخص نے اسے ہاتھ لگاکر دیکھا اور بڑا متعجب ہوا۔میاں صاحب وہ چادر مسجد میں بھول گئے۔یاد آنے پر اسے تلاش کیا گیا، لیکن نہ ملی۔تین چار روز بعد بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس شخص نے اس چادر کو ہاتھ لگا کر دیکھا اور اس کی نفاست پر تعجب کا اظہار کیا تھا، اس کا لڑکا اسے بازار میں اوڑھے ٹہل رہا تھا۔دیکھنے والوں نے میاں صاحب کو اطلاع دی۔آپ نے بے پروائی سے فرمایا: چھوڑو اس بات کو۔ اطلاع دینے والوں نے خیال کیا کہ میاں صاحب کو یا تو ان کی بات کی سمجھ نہیں آئی یا ان کی |