میں شائع ہوا تھا جو بعد میں”خلافت وملوکیت“ کے نام سے کتابی صورت میں چھپا۔مولانا مرحوم کی سب کتابیں اسی طرح چھپی ہیں۔پہلے وہ کسی موضوع پر”ترجمان القرآن“ میں لکھتے رہےاس کے بعد ان مضامین کو جمع کرکے ان میں حک واضافہ کیا اور کتابی شکل میں چھاپ دیا۔”خلافت وملوکیت“ بھی اسی طرح معرض اشاعت میں آئی۔حافظ صلاح الدین یوسف نے اس کے جواب میں ”خلافت سے ملوکیت تک“ کے عنوان سے ہفت روزہ”الاعتصام“ میں لکھنا شروع کیا۔اس مضمون کی بیس قسطیں چھپیں تو مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب بھوجیانی کے مشورے اور ان کی رہنمائی میں ضروری اصلاحات وترجیحات کے بعد اسے کتابی صورت میں شائع کردیاگیا۔یہ حافظ صاحب ممدوح کی پہلی باقاعدہ تصنیف تھی جو اس وقت شائع ہوئی تھی جب وہ عمر کی بیسویں یااکیسویں منزل طے کررہے تھے۔جوانی کے دور کی اس اوّلیں تصنیف سے ظاہر ہے انسانی فطرت کے مطابق انھیں بہت مسرت ہوئی ہوگی اور ان کا حوصلہ بڑھا ہوگا۔ اس وقت ہفت روزہ”الاعتصام“ کے مدیر علامہ احسان الٰہی ظہیر تھے اوراخبار مرکزی جمعیت اہلحدیث کا ترجمان تھا لیکن اس کا ڈیکلریشن ابتدا ہی سے مولانا عطاء اللہ حنیف کے نام تھا۔پھر حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ مولانا عطاء اللہ صاحب نے اخبار اپنی تحویل میں لے لیا اور علامہ احسان الٰہی ظہیر اس کی ادارت سے علیحدہ ہوگئے۔میں اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا اور نہ جانے کی ضرورت ہے۔ اب اخبار کے اخراجات، اس کی اشاعت اور ادارت کی تمام ترذمہ داری مولانا عطاء اللہ حنیف پر آپڑی تھی۔یہ 1970ء یا اس کے پس وپیش کی بات ہے۔ان حالات میں (اخباری معاملات کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود) حافظ صلاح الدین یوسف ان کےساتھ تعاون کرنے لگے۔مولانا کے بھانجے مولاناسلیمان انصاری اور صاحبزادے حافظ احمد شاکر بھی اخبار کے انتظامی معاملات میں سرگرم عمل ہوئے۔پھر آہستہ آہستہ ایک وقت آیا کہ اخبار کی ادارتی ذمہ داری حافظ صاحب کےسپرد کردی گئی۔لیکن وہ مولانا سے رہنمائی لیتے رہے۔مولانا کی وفات تک پندرہ سولہ سال حافظ صاحب”الاعتصام“ کے مدیر رہے۔مولانا کی وفات(3۔اکتوبر 1987) کے بعد بھی کئی سال اس اخبار سے باحیثیت مدیر ان کی وابستگی رہی۔اس طرح تقریباً چوبیس برس ان کا”الاعتصام“ سے انسلاک رہا۔اس اثناء میں مختلف موضوعات وعنوانات پر ان کے بے شمار اداریے، شذرات اور مضامین اس اخبار میں شائع ہوئے۔وفیات اور کتابوں پر تبصروں کی صورت میں بھی بہت کچھ چھپا۔بے شبہ یہ مواد ہزاروں صفحات پر مشتمل ہوگا۔علاوہ ازیں وفاقی شرعی عدالت کے |