کردیا۔مندرجہ ذیل تین مضمون انھوں نے اپنے عہد طالب علمی میں حوالہ قرطاس کیے۔ 1۔ایوب خاں کے زمانے بڑی دھوم دھام کے ساتھ”جشن میلادالنبی“ منایا گیاتھا۔اس وقت میاں محمد دین کے نیشنل فین کی بڑی شہرت تھی اورشاہدرہ میں ان کی بہت بڑی فیکٹری تھی جس میں یہ پنکھے بنائے جاتے تھے۔جشن میلاد النبی گرمیوں کے موسم میں آیا تھا اور اس کے لیے میاں محمد دین کی فیکٹری سے کئی ہزار پنکھے لاہور کے مختلف بازاروں میں نصب کیے گئے تھے جو فضا میں لہراتی ہوئی رنگ برنگ جھنڈیوں کے جھرمٹ میں تیزی سے گھومتے تھے۔یہ بے حد خوبصورت منظر تھا جو میں نے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ مختلف مقامات میں گھوم پھرکر دیکھاتھا۔میاں محمد دین تقسیم ملک کے زمانے میں امرتسر سے لاہورآئے تھے اور لاہور کی گوالمنڈی میں امرتسر کے رہنے والے لوگ زیادہ تعداد میں آباد تھے۔اس لیے میاں صاحب کی فیکٹری کے پنکھے گوالمنڈی میں کثرت سے نصب کیے گئے تھے۔حافظ صلاح الدین یوسف بھی میلاد النبی کی رونقیں دیکھنے کے لیے دارالعلوم کے طلباء کےساتھ مختلف مقامات میں گئے اورپھر اس کے نتیجےمیں مضمون لکھا:”میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کرنہ سکا۔“ یہ مضمون 16۔اگست 1965ء کے”الاعتصام“ میں چھپا۔میں اس سے ڈھائی مہینے پیشتر 30 مئی 1965ء کو”الاعتصام“ کی ادارت سے علیحدہ ہوچکا تھا۔اس کے بعد ان کا یہی مضمون ان کی کتاب”عید میلاد کی تاریخی وشرعی حیثیت“ میں شامل ہوا۔ 2۔حافظ صاحب کا دوسرا مضمون ”الاعتصام“ میں پاکستان کی روزنامہ صحافت کے متعلق چھپا۔اس کا عنوان تھا”پاکستانی صحافت۔جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔“ 3۔حافظ صاحب اپنے دور طالب علمی میں ماہنامہ”تجلی“(دیوبند) کے مدیر عامر عثمانی مرحوم کے طرز تحریر سے بہت متاثر تھے۔عامر عثمانی مرحوم کسی نہ کسی صورت میں اہلحدیث کے خلاف عام طور سے لکھتے رہتے تھے۔حافظ صاحب نے”خوگرحمد سے تھوڑا ساگلہ بھی سن لے“کے عنوان سے”الاعتصام“ کی دو قسطوں میں مضمون لکھا جس میں اہلحدیث کے متعلق ان کے معاندانہ اور مخالفانہ رویے کی مذمت کی گئی تھی۔بحمداللہ میں مرحوم مدیر”تجلی“ کے طرز نگارش سے کبھی متاثر نہیں ہوا۔ان کا زیادہ ترسلسلہ تحریر اپنے سے اختلاف کرنے والوں سے متعلق طنز وتشنیع پر چلتا تھا۔ان کی تحریروں میں کوئی خاص علمی بات تو نہیں ہوتی تھی، البتہ قاری کو ان کی تحریروں سے کچھ نئے الفاظ مل جاتے تھے۔ حافظ صلاح الدین یوسف کی پہلی تصنیف”خلافت سے ملوکیت تک“ ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک مضمون ان کے رسالے” ترجمان القرآن“ کی متعدد قسطوں |