اوراپنی ضرورت اور مالی حالت کے مطابق کوئی نہ کوئی کتاب خریدلیتے۔اس طرح مطالعے کاخاصا ذوق پیداہوگیا، جس کی وجہ سے ان کی زبان بھی نکھر گئی اورمعلومات میں بھی اضافہ ہوا۔لکھنے کابھی جذبہ ابھرا۔ذہن اخذ وقبول کی صلاحیت سے بہرہ ور تھا اور حالات نے بھی موافق سمت اختیارکرلی تھی، اس لیے جیسے جیسے حصول علم کی منزلیں طے کرتے گئے، اسی نسبت سے قلم وقرطاس سےبھی روابط کا شوق بڑھتا گیا۔ ان کے ذوق مطالعہ میں اضافے کا سبب جامع العلوم سعودیہ کے ایک استاذمولاناعبدالرشیدندوی لداخی کی تربیت بھی ہوئی۔انھوں نے دارالعلوم ندوۃالعلماءلکھنؤ میں متعدد مشہوراساتذہ سے حصول فیض کیاتھا اوران کامطالعہ بہت وسیع تھا۔نہایت متواضع اور منکسر مزاج ہل علم تھے۔زندگی کے آخری دورمیں انھوں نے اپنی تدریسی خدمات جامعہ دارالعلوم بلتتان غواڑی کے سپرد کردی تھیں۔بہت اچھے معلم تھے اورطلباء کی بہترین انداز سے تربیت کرتے تھے۔یکم جنوری 2001ء کو جامعہ دارالعلوم غواڑی میں فوت ہوئے۔ اب حالات نے ایک اور پلٹا کھایا جس کے نتیجے میں حافظ صلاح الدین یوسف طلب علم کے لیے کراچی سے لاہورآگئے۔اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ سال ہوگی۔یہاں انھوں نے دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں داخلہ لیا۔دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے اور اساتذہ تھے شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسحاق، مولانا حافظ عبدالرشید گوہڑوی اور مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی۔اس سے ایک سال قبل مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کراچی تشریف لے گئے تھے اور ان کا قیام جامع العلوم سعودیہ میں رہاتھا۔وہیں حافظ صلاح الدین یوسف کو ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔مولانا نے حافظ صاحب کے ذوق مطالعہ کے پیش نظر انھیں علمی نوعیت کے بعض مشورے بھی دیے اور کچھ کتابیں بھی پڑھنے کے لیے فرمایا۔اب وہ طالب علم کی حیثیت سے لاہور آئے تو مولانا سے میل ملاقات کاسلسلہ شروع ہوا۔مولاناکسی نے زمانےمیں دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں بطور شیخ الحدیث خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔اب دارالعلوم میں کوئی تدریسی ذمہ داری تو ان کے سپرد نہ تھی، البتہ مکتبہ سلفیہ کے نام سےدارالعلوم کی ایک دکان میں انھوں نے اپنے ذوق کی کتابوں کی نشرواشاعت کے لیے مکتبہ قائم کرلیا تھا جس میں اسباق سے فراغت کے بعدحافظ صلاح الدین یوسف بھی آجاتے تھے وہ وہاں بیٹھتے اور مولانا کےافکار عالیہ سےمستفید ہوتے۔ طالب علمی کے زمانے میں مختلف قسم کی کتابوں اور رسالوں کے مطالعے کی وجہ سے حافظ صاحب ممدوح میں اظہار مدعاکےسلسلے میں اعتمادپیداہوگیاتھا اوران کے ذہن میں یہ سوچ ابھرآئی تھی کہ وہ اپنے مافی الضمیرکوواضح الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں۔چنانچہ قلم ہاتھ میں پکڑااور لکھنا شروع |