Maktaba Wahhabi

564 - 665
عبدالماجد (ڈیرہ غازی خاں) حافظ محمد ایوب (شیخ الحدیث مدرسہ تعلیم القرآن حیدر آباد) پروفیسر عبدالرحمٰن عتیق (انٹر نیشیل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) محمد سعد مکی (مدرس الحرام المکی مکہ مکرمہ) حافظ عبدالغفار (خطیب مسجد الفردوس میاں چنوں) محمد عمر یمنی (مدرس مدرسہ اشاعۃ التوحید یمن) محمد عبداللہ یمنی (مدرس مدرسہ اشاعۃ التوحید یمن) محمد ہارون سوڈانی (مدرس مدرسہ اسلامیہ سوڈان ) محمد سرور عاصم (مکتبہ اسلامیہ، فیصل آباد و لاہور)قاری رفیق الرحمٰن (قباء اسلامک اکیڈمی سر گودھا)عبداللطیف (مدرسہ البدر الاسلامیہ بہاول پور) قاری صاحب محمد ایوب (جامعہ ختم النبوت چنیوٹ) جہاد افغانستان اب چند الفاظ حافظ عبدالستار حماد کی جہادی سر گرمیوں کے بارے میں۔! 1988؁ءسے 1992؁ء تک کم و بیش پانچ سال حافظ عبدالستار حماد جامعہ سلفیہ میں بسلسلہ تدریس قیام فرما رہے۔ اس زمانے میں افغانستا ن میں روس کے ساتھ جہاد جاری تھا۔1988؁ءمیں جامعہ میں سالانہ چھٹیاں ہوئیں تو حافظ صاحب میں پچاس طلبا ءکے ساتھ اس جہاد میں شرکت کی۔ مولانا محمد داؤد فہیم بھی ان کے ہمرا ہ تھے۔یہ قافلہ پشاور سے ہوتا ہوا پارا چنار کے راستے صوبہ جاجی گیا۔ جہاں چند عرب مجاہدین کی معاونت سے ایک ٹریننگ سنٹر قائم تھا۔ اس سنٹر کے انچارج ذکی الرحمٰن لکھوی تھے۔ دو مہینے حافظ عبدالستار حماد اور ان کے ساتھیوں کاقیام وہاں رہا۔ آئندہ سال کی سالانہ چھٹیوں میں حافظ صاحب تیس طلباء کے قافلے کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور افغانستان کے مختلف مقامات میں خدمات انجام دیں۔ وہاں انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ بہت لوگوں سے ملے اور افغانستان کے متعدد پہاڑی علاقوں میں جانے اور جہادی سر گرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع حاصل ہوئے۔ یہ ان کی زندگی کا ایک مستقل موضوع اور عجیب و غریب تجربہ ہے جس کی اس مضمون میں تفصیل بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ ایک کتاب کا موضوع ہے۔ میرے خیال میں حافظ صاحب کو اس کے متعلق وضاحت سے لکھنا چاہیے کہ وہ کہاں کہاں گئے۔ کن کن لوگوں سے ملے۔اس علاقے کی کیا صورت حال ہے اور جہاد افغانستان سے ان پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اس کا موجودہ صورت حال سے بھی موازنہ کرنا چاہیے کہ اس جہاد سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچا۔ کویت میں دعوت دین حافظ عبدالستار حماد باہمت عالم دین اور اسلام کے مخلص ترین داعی ہیں5۔دسمبر 1999؁ءکو
Flag Counter