عبدالستار فانی“کہلاتے تھے اور اس نام سے جماعتی اخباروں میں مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی شائع ہوئے۔ مدینہ طیبہ میں انھوں نے اپنے استاد شیخ محمد بن حماد انصاری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی کہ”اللہ کے نزدیک بہترین بندے الحماد ون ہیں یعنی جو کثرت سے اس کی حمد وثنا کرتے ہیں۔ یہ حدیث سن کرانھوں نے عبدالستار حماد کہلانا شروع کردیا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ مدینہ منورہ میں قیام کے زمانے میں تعلیم کے علاوہ حافظ عبدالستار حماد نے حسب ذیل خدمات سر انجام دیں۔ ©۔۔۔مسجد نبوی کے خطیب کے خطبہ جمعہ کا بالالتزام اُردو ترجمہ کر کے ہفت روزہ ”اہل حدیث“کو بھیجتے رہے اور وہ خطبات اس اخبار میں شائع ہوئے۔ ©۔۔۔شیخ عبدالعزیز بن باز کے بیس سے زائد اصلاحی کتابچوں کا اُردو ترجمہ کیا، جسے چھوٹے چھوٹے رسائل کی صورت میں مکتبہ الدعوہ نے ہزاروں کی تعداد شائع کر کے تقسیم کیا۔ ©۔۔۔محمد عمر یمنی اور محمد عبداللہ یمنی کو عربی میں باقاعدہ علم الفرائض پڑھایا۔ ©۔۔۔محمد سعد الحربی ان سے قواعد اللغتہ العربیہ یعنی گرائمر پڑھتے رہے۔ ©۔۔۔ہر مہینے کے اختتام پر مدینہ منورہ سے عمرے کے لیے مکہ مکرمہ جاتے۔ وہاں اہل علم سے ملاقات ہوتی۔ اس سلسلے میں حافظ فتح محمد (فتحی) بالخصوص ان کے معاون ہوتے۔ حافظ فتحی روزانہ بیت اللہ شریف میں بیٹھے تھےاور اصحاب علم کا ہجوم ان کے ارد گرد رہتا تھا۔ تدریسی خدمات اب حافظ عبدالستار حماد کی تدریسی خدمات کی طرف آتے ہیں۔ 1980ءمیں وہ مدینہ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو ادارہ البحوث العلمیہ ریاض کی طرف سے پاکستان میں ان کی تقری عمل میں آئی۔ اس سے قبل مولانا محمد یوسف بانی و مہتمم دارالحدیث کمالیہ (راجو وال ضلع قصور ) کی صاحبزادی سے ان کی شادی ہو چکی تھی(جس کا ذکر آگے آئے گا)مولانا چاہتے تھے کہ تدریس کے لیے ان کی تقرری راجو وال کے دارالحدیث میں کی جائے، چنانچہ اس کے لیے وہ سفارشی کے طور پر علامہ احسان الٰہی ظہیر کو ساتھ لے کر مکتبہ الدعوۃ (پاکستان ) کے مدیر شیخ عبدالعزیز بن محمد کی خدمت میں گئے۔ علامہ صاحب نے ان سے بات کی تو انھوں نے ان الفاظ میں دوٹوک جواب دیا: (اما الشيخ عبدالستار فقضي الامر الذي فيه تستفتيان) ”یعنی شیخ عبدالستار حماد کے متعلق فیصلہ تو پہلے ہی کردیا گیا ہے“ |