Maktaba Wahhabi

56 - 665
میاں صاحب نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور اس سے خیروعافیت پوچھی۔اس نے ایک سلسلے میں میاں صاحب سے درخواست کی کہ آپ نواب رام پور کے نام میرے لیے سفارشی خط لکھ دیں تو میرا کام ہوجائے گا۔میاں صاحب نے فرمایا بھائی میں غریب آدمی ہوں، میری سفارش کا نواب صاحب کے نزدیک کوئی وزن نہیں ہوگا۔لیکن اس نے اصرار کیا کہ آپ ضرور خط لکھ دیں، نواب صاحب آپ کی سفارش مانیں گے۔ میاں صاحب نے فرمایا اگر تم اصرار کرتے ہو تو میں خط لکھ دونگا۔عصر کے بعد آکر خط لے جانا۔اسکاپتہ مولاناتلطف حسین کو بھی چل گیا جو سفر حج میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ تھےاور انھیں معلوم تھا کہ اس شخص نے میاں صاحب کو کتنی تکلیفیں پہنچائی تھیں۔چنانچہ وہ عصر کے بعد میاں صاحب کےپاس آکر بیٹھ گئے، ادھر خط لینے کے لیے رام پوری صاحب بھی آگئے۔میاں صاحب نے ان کو خط دیا تو مولوی تلطف حسین نے جھٹ سے کھڑے ہوکر وہ خط اس شخص سے چھین لیا اور پھاڑ دیا۔پھرمیاں صاحب سے کہا کہ آپ کو پتا ہے یہ شخص مکہ مکرمہ میں کتنا آپ کے درپے آزاد رہا ہے اور آپ اس کوسفارشی خط دے رہے ہیں۔میاں صاحب نے کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مولوی تلطف حسین چلے گئے تو میاں صاحب نے رام پوری صاحب سے فرمایا اب تم جاؤ۔کل اتنے بجےمیرے مکان کی گلی میں آنا، میں تم کو وہاں خط دےدونگا۔ مولوی تلطف حسین صاحب کو کسی ذریعے سے اس کا بھی پتا چل گیا، لیکن وہ خاموش رہے۔وہ جانتےتھے کہ اب بھی انھیں خط سے روکا گیا تو وہ خود اس کے گھر جاکر اسےخط دے آئیں گے۔بہرحال وہ حضرت میاں صاحب کا سفارشی خط لے کر نواب رام پور کے پاس گیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ یہ تھے حضرت میاں نذیر حسین صاحب۔اس قسم کی عادات وخصائل کاعالم دین اب کہیں نہیں ملے گا جو اپنے سخت تریں مخالفوں سے بھی اسقدر ہمدردی کا اظہار کرتا ہو۔ میاں صاحب کے شاگردوں میں ایک شخص محمدشاہ پنجابی تھا جو غالباً میاں صاحب کے مخالفوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا اور میاں صاحب کی مخالفت کرنے لگا تھا۔اس کی ہمیشہ یہ عادت رہی کہ جب اسے روپے کی ضرورت پڑی، وہ بے تکلف میاں صاحب کے پاس آیا اور اپنی ضرورت کے مطابق ان سے روپے لے گیا۔طلباء میاں صاحب سے اس کے بارے میں کچھ کہتے تو میاں صاحب خاموش رہتے ۔فارسی کا یہ شعر میاں صاحب پر پوری طرح صادق آتا تھا۔ شنیدم کہ مردان ِ راہ ِخدا دلِ دشمناں ہم نہ کردند تنگ
Flag Counter