Maktaba Wahhabi

57 - 665
قتل کا ارادہ کرنے والے کا انجام میاں صاحب کے زمانے میں دہلی میں ایک بزرگ عطاءاللہ سوداگرپنجابی فروکش تھے جو میاں صاحب کے مخلص تریں عقیدت مند تھے اور اکثران کی خدمت میں آیا کرتے تھے۔ایک دن انھوں نے کہاکہ”میں میاں صاحب سے بہت ڈرتاہوں۔“پوچھاگیا ”کیوں ڈرتے ہو؟“ انھوں نے بتایا کہ ایک دن میاں صاحب کے ایک مخالف نے ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور وہ تلوار پکڑ کر پھاٹک حبش خاں میں ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔اس کا ارادہ یہ تھا کہ میاں صاحب عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں جائیں گے تو آتے یاجاتے ہوئے انھیں قتل کردیا جائے گا۔چنانچہ میاں صاحب وہاں آئے تو وہ تلوار ہاتھ میں تھامے ان کے سامنے جاکھڑا ہوا۔میاں صاحب نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا:اگر میں بنی فاطمہ ہوں تو تو اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔یہ الفاظ سنتے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا، ہاتھ سے تلوار گرگئی اور وہ گھر کی طرف بھاگا، گھر پہنچتے ہی اس کے پیٹ میں اتنا شدید درداٹھا کہ زندگی سے مایوس ہوگیا۔اب لوگوں کو بلا کر اس نے کہا کہ میں غضب الٰہی میں مبتلا ہوں اور اس ابتلا کی وجہ یہ ہے۔چنانچہ اسی کی زبان سے لوگوں میں اس واقعہ کی تشہیر ہوئی اور وہ اسی دن مرگیا۔ ایثار نفس کی انتہا حضر ت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی روایت کرتے ہیں کہ شروع شروع میں جب حضرت میاں صاحب عسرت کا شکار تھے اور اکثر فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی، مولوی محمد دین پنجابی ان کے مہمان ہوئے، میاں صاحب دونوں وقت اپنے حصے کا کھانا ان کو پیش کردیتے تھے۔تین دن اور تین رات مسلسل یہی ہوتا رہا اور خود میاں صاحب فاقے میں رہے۔اس حالت میں نہ حضرت کی پابندی اوقات میں فرق آیااور نہ عام معمولات میں کوئی کمی بیشی ہوئی۔نہ ان دنوں کسی کو ان کے فاقوں کا پتا چلا۔البتہ بعض اوقات اتنا ہوتاتھا کہ بیٹھ کر نہ پڑھا سکتے تو لیٹ کر پڑھانے لگتے، سبق میں ناغہ بالکل نہ کرتے۔یہ ان کے ایثار نفس کی ایک مثال ہے اور یہی معنے ہیں۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ کے۔ سخاوت وجودت اپنے ذاتی کوائف اور اس زمانے کے حالات کے مطابق میاں صاحب میں سخاوت وجودت کا بے حد جذبہ پایاجاتا تھا۔مسجد کےدروازے پر حاجت مند اور مسکین کھڑے ہوتے تو میاں صاحب
Flag Counter