Maktaba Wahhabi

55 - 665
لاکھ کے قریب ہوگی۔مسلمان بھی بہت بڑی تعداد میں آباد تھے، جن میں بڑے بڑے رئیس بھی تھے، متوسط درجے کے لوگ بھی تھے اور غریب بھی تھے۔اگر کسی کے نکاح کا موقع آتا تو ہر شخص کی آرزو ہوتی کہ اس کے بیٹے بیٹی یا رشتے دار کا نکاح میاں صاحب پڑھائیں۔اس سلسلے میں کوئی ان کی خدمت میں آتا تو انکار نہ فرماتے، بلاتامل اس کے ساتھ چل پڑتے اور نکاح پڑھاتے۔نکاح پڑھوانے والے بھی ہمیشہ اس کا خیال رکھتے اور میاں صاحب کے اس عمل کا احترام کرتے۔ ایک خاتون کا فیصلہ ایک مرتبہ ایک نیک بخت عورت کا اپنے سوتیلے بیٹے سے وراثت کے مال کی تقسیم پر کوئی جھگڑا ہوگیا۔معاملہ میاں صاحب تک پہنچا تو انھوں نے عورت کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر عورت اپنی بات پر بضد رہی۔پھر میاں صاحب نے اس عورت سے کہا:ارے ہم نے تیری نانی کا نکاح پڑھایا، تیری ماں کا نکاح پڑھایا، تیرا نکاح پڑھایا۔ہم تمہارے خیر خواہ ہیں۔ یہ الفاظ سن کر وہ عورت رونے لگی اور عرض کیا:حضور! جس طرح آپ چاہیں تقسیم کردیں۔ہم کو منظور ہے۔ لوگوں کی غمی شادی میں شرکت میاں صاحب طبعی طور سے نہایت ملنسار تھے اور اپنے ملنے والوں کی غمی شادی میں شریک ہوتے تھے۔جس طرح وہ لوگوں کی شادیوں میں شرکت فرماتے تھے، اسی طرح ان کی غمی کے موقعے پر بھی ان کے گھروں میں جاتے اور جنازوں میں شامل ہوتے تھے۔یہ ان کے اخلاق کی بلندی کی علامت تھی۔وہ نرم مزاج اور عالی کردار عالم دین تھے۔امیر اور غریب ان کے نزدیک برابر تھے۔ہر مرنے والے کو وہ قابل تکریم قراردیتے تھے اور اس کی تجہیز وتکفین میں شمولیت ان کے نقطہ نظر کے مطابق ضروری تھی۔ لوگوں کی سفارش اپنے مخالفوں اور معاندوں کے لیے انھوں نے ہمیشہ عفوودرگزر سے کام لیا۔ایک شخص رام پور کا رہنے والا تھا اورمیاں صاحب کا سخت مخالف تھا۔جس سال میاں صاحب حج کے لیے گئے تھے وہ بھی گیا تھا۔ہر موقعے پر وہ میاں صاحب کی ایذارسانی کے لیے کوشاں رہا۔حتیٰ کہ اس نے میاں صاحب کے قتل کا منصوبہ بھی بنایا، لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔میاں صاحب کو اس کی تمام حرکات کاعلم تھا، لیکن کچھ نہیں کہتے تھے۔حج سے واپس آئے تو ایک دن وہ مسجد میں میاں صاحب سے ملنے آیا۔
Flag Counter