اور ان سے مستفید ہوئے۔چھ سال کی اس طویل مدت میں مولانا عبدالخالق صاحب پر بھی ان کی عفت کے تمام پہلو ظاہر ہوگئے تھے جس سے متاثر ہوکر انھوں نے ان سے اپنی بیٹی کا رشتہ کیا اور حضرت شاہ محمد اسحاق اور ان کے برادر صغیر شاہ محمد یعقوب پر بھی آشکار ہوگیا تھا کہ یہ شابِ صالح اور جوانِ عفت مآب ہے، اسی لیے انھوں نے ان کے نکاح کی کفالت کی ذمہ داری قبول فرمائی اور خود نکاح خوانی کا فریضہ انجام دیا۔اور اس تقریب سعید کی خوشی میں دونوں عظیم بھائیوں(شاہ محمد اسحاق اور شاہ محمد یعقوب) نے تمام رات درس قرآن وحدیث کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ میاں صاحب کی پاک بازی اور عفت شناسی کی نہ اس سے کوئی بڑی شہادت پیش کی جاسکتی ہے اور نہ اس سے کوئی بڑا ثبوت لایا جاسکتا ہے۔ خادم خلق حضرت میاں صاحب اپنے عہد کے بہت بڑے عالم اور بہت بڑے محدث ہونے کے ساتھ بہت بڑے خادم خلق بھی تھے۔وہ عام لوگوں کی بھی خدمت کرتے تھے اور طلباء کی بھی۔۔۔!سردی، گرمی، برسات ہر موسم میں وہ لوگوں کی خدمت کے لیے تیار رہتے اور ان کی مدد کے لیے پیادہ پا کہیں سے کہیں چلے جاتے۔بازار سے لوگوں کی چیزیں خرید لاتے بلکہ گھروں میں آواز دیتے کہ میں بازار جارہا ہوں، کسی نے کوئی چیز منگوانی ہوتو منگوالے۔بارش ہو یا گرمی اور سردی طلباء کا کھانا خود مدرسے اور مسجد میں پہنچاتے۔رمضان میں سحری کے وقت بالخصوص طلباء کے لیے بروقت کھانا پہنچانے کا اہتمام فرماتے۔بارش کی حالت میں جب کہ طلباء کو مدرسے کے دروازے پر جاکر کھانا لینا مشکل ہوتا اور مدرسے کی گلی میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہوجاتا، مولانا فضل حسین بہاری فرماتے ہیں کہ اس حالت میں، میں نے اپنے کانوں سے میاں صاحب کی آواز مدرسے کے اندر سنی کہ وہ گلی میں کھانا دسترخوان میں لپیٹے ہوئے ہر طالب کا نام لے کر بار بار پکاررہے ہیں! اجی فلاں مولوی صاحب اپنی روٹی لے لو۔اجی فلاں مولوی صاحب اپنی روٹی لے لو۔۔۔بتائیے! اس قسم کی خدمت کوئی عالم دین کسی کی کرسکتا ہے اور کوئی استاد یا مدرسے کا مہتمم طلباء کے لیے اتنا مہربان اور مشفق ہوسکتا ہے۔۔۔؟ نکاح خوانی کا سلسلہ مولانا حسین بہاری کے بقول میاں صاحب کے زمانے میں دہلی کی کل آبادی دوڈھائی |