Maktaba Wahhabi

559 - 665
سلفیہ میں آکر پڑھائی میں مصروف ہوگئے۔ وہاں ان کے دیرینہ ساتھی حافظ عبدالغفاراعوان اور مولانا محمد داؤد فہیم بھی موجود تھے۔اب یہ تینوں جامعہ میں مولانا سلطان محمود کے حلقہ درس میں شامل تھے۔ جنھیں مولانا مرحوم اصحاب ثلاثہ کہا کرتے تھے اور یہ جامعہ میں اسی نسبت سے متعارف ہوئے۔ جامعہ میں سالانہ امتحانات کا وقت آیاتو وہاں کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ حافظ عبدالستار حماد امتحان میں شامل نہیں ہو سکتے۔اس لیے کہ انھوں نے یہاں پورا سال تعلیم حاصل نہیں کی، ان کا زمانہ تعلیم صرف چند ماہ پر مشتمل ہے۔ حافظ صاحب نے اس کا ذکر مولانا سلطان محمود صاحب سے کیا تو انھوں نے انتظامیہ سے بات کی اور فرمایا کہ آپ نے جب ایک طالب علم کو داخل کیا ہے اور اس کا نام آپ کے رجسٹر میں باقاعدہ طالب علم کے طور پردرج ہے تو اسے امتحان میں شمولیت سے کیوں روکا جارہا ہے؟۔اس کے بعد انتظامیہ کی طرف سے انھیں امتحان میں شامل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ ان دنوں جامعہ سلفیہ (فیصل آباد ) کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ امتحانات میں پہلے دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر آنے والے چار طلباءکا مدینہ یونیورسٹی میں خود بخود داخلہ ہو جاتا تھا۔ اس لیےطلباء یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے تھے۔یہ جامعہ سلفیہ کی آخری کلاس کا امتحان تھا جو بے حد اہم تھا۔ امتحان ہوا تو اس کا نتیجہ اس ترتیب سے نکلا۔ اول: حافظ عبدالستار حماد۔ دوم: مولانا محمد داؤد فہیم۔ سوم:چہارم :مولانا محمد اشرف۔ سفر حیات کا نہایت خوشگوار موڑ یہ حافظ عبدالستار حماد کے سفر حیات کا ایسا خوشگوار موڑ تھا کہ جس کا انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔اس کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کاغذات تیار ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے حافظ صاحب کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہو گیا اور ایک ان پڑھ خاندان کافرد دنیا کے بہت بڑے روحانی اور علمی مرکز میں پہنچ گیا۔ اصحاب ثلاثہ یعنی مولانا محمد داؤد فہیم، حافظ عبدالستار حماد اور حافظ عبدالغفار اعوان اکٹھے جامعہ سلفیہ کی طرف سے مدینہ یونیورسٹی پہنچے تھے۔ ان میں سے محمد داؤد فہیم کا داخلہ یونیورسٹی کے کلیۃ الدعوۃ(دعوہ کالج) میں اور حافظ عبدالستار حماد اور حافظ عبدالغفار اعوان کا کلیۃ الشریعہ (شریعت کالج) میں ہوا تھا۔ اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے نائب رئیس شیخ عبدالحسن عباد تھے جو سلفی العقیدہ
Flag Counter